سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

غیراللہ کو سجدہ کرنا بالاتفاق حرام ہے

  • 11911
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4296

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غیر اللہ کےلیے سجدہ بالاتفاق حرام ہے،جبکہ بعض حضرات سجدہ تعظیمی اور سجدہ عباد ت میں فرق کرتے ہیں ۔ پہلے کو حرام اور دوسرے کو شرک قرار دیتے ہیں ، کیا یہ تفریق صحیح ہے ،نیز اس میں فاعل کی نیت اور عقیدے کا کوئی دخل ہے یا نہیں ،اگر شرک ہے تو کس درجے کا؟کیا تعظیمی سجدے کی طرح تعظیمی رکوع ،تعظیمی قیام اور تعظیمی طواف بھی شرک ہے؟ کیا یہ مظاہر عبودیت زند ہ مردہ کےلیے یکساں حکم رکھتے ہیں یا ان میں  کوئی فرق ہے؟تکفیر و خارجیت کے فتنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نےجن و انس کو اپنی عبادت کےلیے پیدا کیا ہے۔ (۵۱/الذاریات:۵۶)

اللہ تعالیٰ کی عبادت سےمراد یہ ہے کہ اس کےحضور انتہائی عاجزی ،لاچاری ،بے بسی اور انکساری کا اظہار کیا جائے۔عبادت کے اظہار کےلیے قیام ،رکوع اور سجدے کو بطور ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے،جبکہ شرک اور عبادت دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے،ا سی طرح اس کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بھی بند کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعظیم کے طور پر غیر اللہ کےلیے قیام ،رکوع اور سجدہ بھی حرام ہے ،جیسا کہ درج ذیل احادیث سےمعلوم ہوتا ہے:‘‘جو شخص پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے دست بستہ کھڑے ہوں ،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔’’ (ابوداؤد،الادب:۵۲۲۹)

رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے تو آپ نے فرمایا:‘‘ایسا مت کیا کرو،جیسا کہ اہل فارس اپنے ‘‘بڑوں ’’ کےساتھ کرتے ہیں۔’’(ابوداؤد،الصلوٰۃ:۶۰۲)

رسول اللہﷺ بیماری کی وجہ سے سہارا لےکر تشریف لائے تو لوگ آپ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوگئے تو آپ نے فرمایا:‘‘تم عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرووہ اس انداز سے ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔’’(مسند امام احمد،ص:۲۵۳،ج ۵)

مذکورہ احادیث میں قیام کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک آدمی نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا ملاقات کے وقت مہمان کے سامنے جھکنا چاہیے؟آپ نے سختی کے ساتھ اس سےمنع فرمایا اور صرف مصافحہ کرنے کی اجازت دی۔(مسند امام احمد،ص:۱۹۸،ج۳)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کسی دوسرے کےسامنے معمولی سا جھکنا بھی شریعت کوناگوار ہے،چہ جائیکہ اس کے سامنے رکوع کیا جائے ،غیر اللہ کےلیے سجدہ کرنا بھی سخت منع ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ اونٹ نے آپ کو سجدہ کیا تو مہاجرین و انصار کہنےلگے کہ آپ کو حیوانات اور حجر وشجر سجدہ کرتے ہیں ،اس بناپر ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں،آپ نے فرمایا :‘‘ایسا کرنا جائزنہیں ہے،تم اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کا اکرام کرو۔’’ (مسند امام احمدص:۷۶،ج ۶)

حضرت قیس بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ میں حیرہ شہر گیا تو دیکھا کہ لوگ اپنے رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سےعرض کیا :یا رسول اللہﷺ !آپ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے، آپ نے فرمایا‘‘اگر تومیری قبر کے پاس سے گزرےتو کیا اسےسجدہ کرےگا؟’’عرض کیا،نہیں ،اس پر آپ نے فرمایا:‘‘پھر مجھے سجدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔’’(ابو داؤد ،النکاح:۲۱۴۰)

حضرت معاذبن جبل ؓ نے عملاًآپ کو سجدہ کیا،رسول اللہﷺ نے پوچھا:‘‘اے معاذ! یہ کیا ہے؟’’حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں ملک شام گیا تھا،وہاں میں نے دیکھا کہ وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں،اس بناپر میرے دل میں چاہا کہ آپ کو سجدہ کروں،آپ نے فرمایا:‘‘ایسا مت کرو اور اگر غیر اللہ کےلیے سجدہ روا ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کی حق ادائیگی کےلیے اسے سجدہ کرے۔’’(ابن ماجہ،النکاح:۱۸۵۳)

قیام ،رکوع اور سجدہ اگرچہ عبادت نہیں بلکہ مظاہر عبادت ہیں،تاہم ہماری شریعت میں غیر اللہ کے لیے انہیں ادا کرنا سخت منع کیا گیا ہے،جیسا کہ سابقہ روایات سےمعلوم ہوتا ہے لیکن اس بات سےانکار نہیں کیا جاسکتا کہ پہلی امتوں کےلیے تعظیمی سجدہ جائز تھا ،جیساکہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ان کےبھائیوں نے سجدہ کیا تھا قرآن پاک میں اس کی صراحت موجود ہے۔(۱۲/یوسف:۱۰۰)

لیکن ہمیں جو دین عطاہوا ہے وہ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے مکمل صورت میں ملا ہے۔ اس میں عبادت اور مظاہر عبادت سب اللہ تعالیٰ کےلیے ہیں۔ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:‘‘قیام ،قعود،رکوع اور سجدہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کا حق ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہو،اس میں کسی غیر کا حق نہیں ہوناچاہیے۔ جیسا کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے کو شرک قرار دیاگیا  ہے۔ حدیث میں ہے کہ‘‘جس نے اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔’’(فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص:۹۳ج:۲۷)

امام ابن تیمیہ ؒ مزید  لکھتے ہیں  کہ ‘‘خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری  اللہ تعالیٰ کے لیے ہے کیونکہ یہ عبادت ہے جو کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کےلیے جائز نہیں  ہوئی ،البتہ سجدہ کرنا اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ایک حکم ہے جس کی بجاآوری ہم پر فرض ہے۔اگر اللہ تعالیٰ تعظیم کے طورپر کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کا ہمیں حکم دیتے تو ہم پر اس حکم کی پیروی کرنا ضروری تھا،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری عبادت اور مسجود کی تعظیم تھی ۔یہی وجہ ہے کہ سجدہ کی دو اقسام ہیں:

ایک سجدہ عبادت:جو کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کےلیے جائز نہیں ہوا۔

دوسرا سجدہ تعظیم: اس میں مسجود کی تعظیم ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے تعظیم کا یہ انداز اختیار کریں ،البتہ ہم سے پہلے لوگوں کےلیے ایسا کرنا جائز تھا۔’’(فتاویٰ ابن تیمیہ،ص:۳۶۰ج:۴)

تفصیل کےلیے فتاویٰ ابن تیمیہ ؒ کے درج ذیل مقامات کا مطالعہ مفید رہے گا۔

(ص:۳۷۲ج:۱،ص:۵۵۳،۵۵۱،۵۰۱ج:۱۱،ص:۹۲،۸۱ج:۲۷)واضح رہے کہ اس قسم کی فکری اور نظریاتی مباحث کے لیے بہت تفصیل درکار ہوتی ہے جو فتویٰ میں نہیں  آسکتی ،لہٰذا جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس میں سائل اپنے سوالات کے جواب تلاش کرسکتا ہے۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

ج2ص42

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ