سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(166) وضو ء اور غسل میں نیت کرنا فرض ہے

  • 11903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2691

سوال

(166) وضو ء اور غسل میں نیت کرنا فرض ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضوء اور غسل  میں نیت فرض ہے کہ نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکثر اہل علم جسے اصح کہتے ہیں وہ یہی ہے کہ نیت تمام عبادات میں فرض ہے خواہ وہ خود مقصود ہوں یا عبادۃ مقصودہ کیلئے ذریعہ ہوں او رجو عبادات میں وسیلہ اور مقصود کا فرق کرتے ہیں انکے پاس سوائے قیاس محض کے او رکوئی دلیل نہیں او ریہ بوجہ نص کے بالمقابل ہونے کے کسی شمار میں  نہیں۔

اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس حدیث میں فرمایا ہے جو صحاح او رسنن و مسانید سب میں آئی ہے کہ ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

تو تمام اعمال نیت کے ما تحت ہیں او رجو نیت کے مسئلے میں اعمال میں فرق کرتاہے اس پر دلیل  پیش کرنا لازم ہے او ریہ حدیث اسلام کے قواعد میں سے ایک عظیم قاعد ہ ہے جس پر توجہ کرنا فرض ہے۔

جان لو کہ میں نے احادیث میں غور کیا تو مجھے وضوء اور طہارت مستقل عبادت معلوم ہوئیں۔

جیسے کہ احمد ‘مالک ‘دارمی اور ابن ماجہ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِن»

(سیدھے ہو جاؤ او رتم(کما حقہ)احصاء ہے گز نہیں کر سکو گے او رجان لو کہ تمھارے اعمال میں سے بہتر عمل نماز ہے او روضوء کی  حفاظت مؤمن ہی کرتاہے)۔

حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ وضوء پر مدامت کرنا مؤمن ہی کا کام ہے‘تو وضوء پر مدامت کرنی ایمانی صفت ہے خواہ وہ نماز کے لئے ہو یا نہ ہو۔او ر اللہ تعالیٰ کو طہارت پسند ہے تو وضوء اللہ تعالیٰ  کو ہمیشہ محبوب ہے تو یہ مستقل عبادت ہے‘صرف وسیلہ نہیں ہے

او راسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  پیشاب کر کے مٹی سے مسح کر لیتے تھے

میں کہتا ہوں:پانی تو آپ کے قریب ہے تو فرماتے:’’میں کیا جانوں شاید میں(پانی تک) نہ پہنچ سکوں۔(احمد:1/303) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ  تیمم عبادت کے لئے نہیں تھا بلکہ ‘نقسہ عبادت تھا۔

اور اسی طرح احمد ‘ابو داؤد اور اسی طرح المشکاۃ(1/108) میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جو مسلمان ذکر کر کے بحالت طہارت رات بسر کرتا ہے پھر وہ رات کو کہیں جاگ جائے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی خیر مانگے تو اللہ تعالیٰ سے وہ دیدیتاہے ‘‘۔اس معنی کی حدیثیں بکثرت ہیں۔

اور جو وضوء کپڑے کے دھونے پر قیاس کرتا ہے اس لحاظ سے کہ اسمیں نیت واجب نہیں‘یہ قیاس مع الفارق ہے ‘کیونکہ طہارت کی دو قسمیں ہیں:

1۔حدث سے طہارت‘یہ نیت کی محتاج ہے۔

2۔نجاسۃ سے طہارت اسمیں نیت کی حاجت نہیں۔

کیونکہ اسکا تعلق باب ترک (چھوڑ دینے)سے ہے۔جیسے زنا کو ترک کر دینا‘شراب پینے کو ترک کر نا‘عمل قوم لوط کو ترک کرنا‘غصب اور چوری کو ترک کرنا وغیرہ۔تو ان چیزوں میں ضروری نہیں کہ آپ روزانہ نیت کرتے رہیں  اور کہیں میں نیت کرتا ہوں کہ میں زنا نہیں کرونگا‘میں نیت کرتا ہوں کہ میں شراب نہیں پیونگا وغیرہ۔

جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح المہذب (1/309) میں ذکر کیا ہے او رابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری(1/11) میں تو جو دین میں احتیاط سے کام لیتا ہے وہ اسی قول کو بہتر سمجھے گا۔اور جو ظلمات  تقلید کے اندھیروں میں داخل ہو چکا ہے تو اس پر حق نہ دیکھنے کی ملامت نہیں کیونکہ وہ اندھیروں میں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص378

محدث فتویٰ

تبصرے