سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(165) انگلیوں کے خلال کا حکم اور طریقہ

  • 11901
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2425

سوال

(165) انگلیوں کے خلال کا حکم اور طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت مطہرہ میں انگلیوں کے خلال کا کیا حکم ہے او راس کی کیفیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تو وضوء کرنے لگے تو  مکمل کر اور انگلیوں کا خلال کر‘‘۔ترمذی(1/14) ‘ابو داؤد(1/29) ابن ماجہ(1/75) برقم(448)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جب تم وضوء کرو تو  ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کر لیا کرو‘‘۔ترمذی(1/41) ابن ماجه(1/75)

مستور بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ وہ چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کو ملا کر کرتے تھے۔(ترمذی:1/15) رقم(40) ابن ماجہ  رقم(446)

طبرانی معجم میں علاءابن کثیر سے روایت  لاتے ہیں ‘وہ مکحول سے روایت کرتے ہیں ‘وہ واثلہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے پانی کے ساتھ انگلیوں کا خلال نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کا خلال  آگ سے کریں گے‘‘-(نصب الرایہ:1/26-27)

ابن ابی شیبہ (1/11) میں مصعب بن سعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسی قوم کے پاس سے گزرے جو وضوء کر رہے تھے تو آپ نے  انہیں کہا :خلال کرو۔

اور اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے وہ کہتے ہیں :’’آدمی کو اپنی انگلیوں کو خوب پانی پہچانا چاہیے نہیں تو انہیں آگ پہنچائی جائے گی‘‘۔

اور حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا  ہے وہ کہتے ہیں :’’وضوء میں انگلیوں کا خلال کر و اس سے پہلے کہ آگ سے ان کا خلال کرایا جائے‘‘-

شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نیل الاوطار (1/191) میں کہا ہے ’’کہ اس باب کی احادیث ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے خلال کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں‘یہ احادیث باہم تقویت پا کر وجوب ثابت کرنے کے قابل ہیں خاصکر لقیط بن صبرہ کی حدیث‘‘۔

احادیث میں خلال کے وجوب کی تصریح ہے  اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول و فعل سے ثابت ہے اور اسمیں کوئی فرق نہیں کہ خلال کے بغیر پانی کا پہچنا ممکن ہے یا نہیں۔او رہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔تو صرف پاؤں کی انگلیوں کے ساتھ مقید کرنے یا پانی کے پہچنے کے عدم امکان کے ساتھ مقید کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔

اور سبل السلام (1/48) میں ہے:’’لقیط کی حدیث انگلیوں کے خلال کے وجوب کی دلیل ہے‘‘۔مراجعہ کریں تمام المنہ ص(93)مبارکفوری   رحمہ اللہ تعالیٰ   نے تحفۃ الاحوذی(1/49) میں وجوب کو ترجیح دی ہے۔

اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے خلال کرے اور سب سے نچلی انگلی سے شروع کرے‘خلال کے بائیں ہاتھ سے ہونے کی صراحت احادیث میں نہیں لیکن اسکا استدلال اس طرح کیا جا سکتاہے کہ خلال بھی ازالہ نجاست کے قبیلے سے ہے او رازالہ نجاست بائیں ہاتھ سے ہوتاہے جیسے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے:’’آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا بایاں  ہاتھ قضائے حاجت میں استعمال کے لئے او راسی طرح ازالہ گندگی کے لئے تھا‘‘۔اور یہ حدیث صحیح ہے۔

 یہ تو پاؤں کی انگلیوں کے خلال کی کیفیت تھی۔ہاتھ کی انگلیوں کا خلال جیسے چاہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اسمیں کوئی قیدوارد  نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص377

محدث فتویٰ

تبصرے