سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) اعضاء وضوء کا تین بار سے زائد دھونا جائز نہیں

  • 11894
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1172

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس حدیث کا کیا مطلب ہے جو صاحب ہدایہ نے (1/91) میں ذکر کی ہے’’نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ایک بار وضوء کیا اور فرمایا یہ میرا وضوء ہے کہ جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا۔پھر دو دو بار وضوء کیا اور فرمایا:یہ اس شخص کا وضوء ہے  جس کا  اجر اللہ دو چند کرے گا‘اور پھر تین تین بار وضوء کیا اور فرمایا:یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضوء ہے جو  اس سے زیادہ  کرے گا یا کم کرے گا تو وہ حد سے بڑھا اور ظلم کا مرتکب ہوا تو یہ قول کہ ’’کم کرے گا‘‘یہ صحیح احادیث کے معارض ہے جسمیں ایک ایک بار اور دو دو بار کرنے کا جواز ثابت ہوتا  ہے اور احادیث میں دو مختلف کیفیتیں آئی ہیں۔

1۔ابن عباس رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے ‘وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ایک بار وضوء کیا۔(بخاری1/27) وغیرہ۔

عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضوء  دو دو بار کیا۔(بخاری)

عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘انہوں نے مقاعد میں وضوء کیا اور کہا میں تمہیں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا وضوء نہ دکھاؤں تو انہوں نے تین تین بار وضوء کیا۔(مسلم)

اور ترمذی (1/16) میں عبد اللہ بن زید سے روایت لائے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضوء کیا‘آپ نے چہرہ تین بار دھویا ۔اور ہاتھ دو بار دھوئے اور سر کا مسح کیا اور پاؤں دو بار دھوئے۔

اس حدیث کو ابو داؤد نے  (1/25) برقم(118) نکالا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں پاؤں کا دو بار دھونا شاذ ہے۔ بخاری مسلم او رابوداؤد میں دو بار کے بغیر آئی ہے۔

یہ حدیث دو بار اور ایک بار پر اقتصار کرنے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ پہلی حدیث اسکے مخالف ہے‘انمیں تطبیق کی کیا صورت ہو گی؟۔ سائل :اخوکم عزیز اللہ طالب علم۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث ابن ماجہ برقم(422) لائے ہیں:’’باب وضوء میں اعتدال کا او ر حد سے بڑھنے کی کراہت کا‘‘۔عبد اللہ بن عمر و سے روایت ہے وہ  کہتے ہیں کہ ایک اعرابی  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور وضوء کے بارے میں پوچھنے لگا‘تو آپ نے اسے تین تین بار کر کے دکھایا پھر فرمایا:’’جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا‘‘۔یا کہا کہ’’حد سے بڑھا اور ظلم کیا‘‘۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

ابو داؤد برقم(135) نے طویل ذکر کی ہے اور مزید یہ لفظ بیان کرتے ہیں ’’وضوء اس طرح کیا جاتا ہے جو اس سے کم یا  زیادہ کرے اس نے برا کیا اور ظلم کیا یا ظلم کیا اور برا کیا‘‘۔شیخ البانی  رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح ابو داؤد میں کہا ہے یہ لفظ شاذ ہیں ۔اور شوکانی نے نیل الاوطار (1/216) میں شذوذ کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہاگیا ہے کہ منکر ہے۔

تو ثابت ہوا کہ تین بار سے زیادہ حرام ہے اگرچہ احتیاط ہی کے لیے ہو کیونکہ ایسے موقعوں پر احتیاط بدعت ہے اور وسوسہ ہوتی ہے‘اسی لئے احمد رحمہ اللہ تعالیٰ اور اسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ   نے کہا ہے:تین بار سے زیادہ تو مبتلائے وسوسہ شخص ہی کر سکتا ہے۔

ابن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:وضوء میں جو تین بار سے زائد دھوتا ہے اسکے گنہگار ہونے کا خطرہ ہے‘‘۔

امام شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ   کہتے ہیں:’’تین بار سے زائد کے مکروہ ہونے میں کوئی خلاف نہیں‘‘۔تو صاحب ہدایہ کا یہ کہنا کہ احتیاط کیلئے تین بار سے جائز ہے‘غلط ہے اور حدیث کے خلاف ہے۔ اور صحیح مرفوع حدیث میں آیا ہے کہ عنقریب میری امت میں ایسی قوم ہو گی جو دعا اور طہارت میں حد سے بڑھے گی‘‘۔(احمد ‘ابو داؤد‘ابن ماجہ)اور مشکاۃ(1/47)

تو مسلمان کیلئے ایسا نہیں بننا چاہیے جس کی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے سچے قول  میں مذمت کی ہو۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص371

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ