السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سارے سرکا مسح کرنا فرض ہے؟یا پیشانی یا اس سے بھی کم پر اقتصار کیا جا سکتاہے؟جیسے کہ بعض فقہاء کہتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ افضل سارے سے کامسح کرنا ہے۔سر کے اگلے حصے سے شروع کر کے ہاتھ گدی تک لیجائے پھر وہاں واپس سے آئے جہاں سے شروع کیا تھا۔اور اسکی کوئی خاص کیفیت نہیں جیسے کہ بعض متفقہ بیان کرتے ہیں کہ وضوء کرنے والا اپنے ہر ہاتھ کی تین انگلیاں اپنے سر کے اگلے حصے پر رکھے اور باقی دو انگلیوں کو الگ رکھتے ہوئے گدی تک لے جائے پھر دو باقی انگلیاں رکھ کر واپس سر کے اگلے حصے تک آئے ۔سنت مطہرہ میں مسح اس کیفیت کے ساتھ ثابت نہیں۔
مسح سر کی کتنی مقدار کا ہونا چاہیے‘تو اس میں راجح یہی ہے کہ پورے سر کا مسح فرض ہے اور مسح کرتے ہوئے سارے سر کو گھیرنا چاہیے‘اسکے دلائل ہم تفصیل سے ذکر کرتے ہیں:انمیں سے ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
﴿وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...٦﴾... سورة المائده
’’اور اپنے سروں کا مسح کرو‘اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھو لو‘‘۔
تو آیت میں ایسی کوئی چیز نہیں جو دلالت کرتی ہو کہ سرکے کچھ حصے کا مسح جائز ہے۔یہ آیت ہو بہو اس آیت کی سی ہے۔
﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ۚ ...٦﴾...سورة المائده
(اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھوں پر مل لو)
دونوں آیتوں میں لفظ (مسح) کا اور جرف(ب) کا ہے جب تیم کی آیت بعض کے مسح پر دلالت کرتی باوجود یکہ وہ وضوء کا بدل ہے اور وہ مٹی سے مسح کرنا ہے اور اس میں تکرار مشروع نہیں تو وضوء کی آیت اس پر دلالت کیسے کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وضوء اصل ہے تو پانی کے مسح میں کیسے تکرار مشروع ہوا –یہ بات تو ایسا کوئی شخص نہیں کہہ سکتا جو سمجھتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے –
تو جو باء کو تبعیضہ کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قدر مشترک پر دلالت کرتی ہے تو وہ غلطی بر ہے –ائمہ ،لغت اور قرآن کریم کی دلالت تینوں لحاظ سے غلطی پر ہے –یہاں باء الصاق کی ہے اور اس کا دخول کسی فئدے کے لیے ہوتا ہے جب یہ کسی ایسے فعل پر داخل ہو جو پہلے سے متعدی ہو تو اس سے قدر زائد کا فائدہ ہوتا ہے جیسے کہ اللہ تعالی کے قول میں :(یشرب بھا عباد اللہ)(الدہر :6)
(جو ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے (سیراب ہو کر)پئیں گے )
اگر کوئی کہے :یہاں (یشرب بہا ) کا معنی (یشرب منہا ) ہے تو یہ سیر ہو کر پینے پر دلالت نہیں کررہی –تو یہاں (یشرب )(یروی) کے معنی کو متضمن ہے،اس لئے (بشرب بہا) کہا گیا ہے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ وہ پیئں گے لیکن سیراب ہو کر پیئں گے –ایسی مثالیں بہت ہے –اسی طرح وضوء و تیمم میں مسح ہے اگر کہا جائے (فامسحو ا رووسکم اور وجو ھکم )-تو پھر اس کی دلالت اس پر نہ ہوتی جو مسح کے ساتھ ملی ہوتی ہے –
جب آپ کہتے ہیں :(مسحت راس فلان )(میں نے فلاں کا سر مسح کیا )تو آگر آپ کے ہاتھ کے لیے نہ ہوں تب بھی درست ہے اور جب کہا جائے :( فامسحو ا رووسکم اور وجو ھکم)
تو یہاں پر مسح کے ساتھ الصاق کا معنی بھی ہے جس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے تم چہرے اور سر کا مسح کے ساتھ ایک اور چیز بھی ملاتے ہو تو اس سے تیمم کی نیت میں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھ کے ساتھ لاحق ہوتی ہے اور اسی لئے کہا ہے (فامسحو ا رووسکم اور وجو ھکم) یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تیمم میں استیعاب فرض ہے کیونکہ تیمم غسل وجہ کا بدل ہے اور اس کا استیعاب واجب ہے اس لئے کہ بدل مبدل منہ کا قائم مقام حکم میں ہے ،صفت میں نہیں اسی لئے مسح الخفین جو بدل ہے غسل رجلین کا واہاں مسح کا استیعاب فرض نہیں جب کہ رجلین میں غسل کا استیعاب ہے –
یہ عجیب تحقیق ہے جو شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے (21/122)میں ذکر فرمائی ہے –
ان دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا مشہور طریقہ ہے کیونکہ کسی ایک بھی صحیح حدیث میں بالکل یا ثابت نہیں کہ آپ نے سر کے بعض حصے کے مسح پر اقتصار کیا ہو‘جیسے زاد المعاد (1/67) میں ہے۔
اور جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں :’’کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا پھر مسح کیا پیشانی کا اور پگڑی کا او رموزوں کا ‘‘۔(مسلم) (المشکاۃ1/46)
اسمیں صرف پیشانی پر اقتصار کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے تو یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناصیہ سے مسح شروع کر کے پگڑی پر مسح کر کے مکمل کیا تو تم آدھی حدیث لے کر باقی آدھی حدیث کیوں چھوڑتے ہو۔
جو امامہ پر مسح نہیں مانتے انہیں اس حدیث سے استدلال نہیں کرنا چاہیے ۔اور اسی طرح حدیث انس رضی اللہ عنہ سے جسے ابو داؤد نے (1/ برقم:147) روایت کیا ہے۔ اسی طرح درایہ علی الہدایہ میں ہے:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووضوء کرتے ہوئے دیکھا آپ قطرے پگڑی باندھے ہوتے تھے تو اپنا ہاتھ پگڑی کے نیچے سے داخل کیا پھر اگلے سر کا مسح کیا اور پگڑی نہیں کھولی‘‘۔
تو انس کا مقصد یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بالوں کا مسح کرنے کیلئے پگڑی نہیں کھولی اور انہوں نے عمامہ پر مسح کر کے مسح کی تکمیل کی نفی نہیں کی ۔جس کا اثبات مغیرہ بن شعبہ وغیرہ نے کیا ہے تو انس کا سکوت نفی پر دلالت نہیں کرتا۔
میں کہتا ہوں:اسکے باوجود انس کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اسمیں ابو معقل راوی مجہول ہے جیسے کہ تقریب میں ہے ‘ابن ماجہ نے برقم(564) باب ما جاء فی المسح علی العمامۃ )میں روایت کیا ہے تو اس سے مقدار ناصیہ کے لیے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہی امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صحیح (1/31) میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے(باب مسح الرأس کله لقوله تعالیٰ :وامسحو ا برؤوسکم)یہ باب ہے کہ سارے سر کا مسح کیا جائے بوجہ اللہ تعالیٰ کے قول کے’’اور مسح کرو اپنے سروں کا‘‘۔
امام ابن مسیب رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ سر پر مسح کرنے میں عورت بمنزلہ مرد کے ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا گیا :کیا بعض سر کا مسح کرنا کفایت کرتا ہے؟تو انہوں نے عبد اللہ بن زید کی حدیث سے حجت پکڑی ۔پھر یحیٰ المازنی سے روایت کیا کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن زید کو کہا اور وہ عمرو بن یحیٰ کے دادا ہیں:کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضوء کرتے تھے تو عبد اللہ بن زید نے کہا:ہاں۔انہوں نے پانی منگوا کر اپنے ہاتھ پر ڈالا دوبار ‘پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا تین بار‘پھر منہ دھویا تین بار پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے دو بار پھر دونوں ہاتھو ں سے سر کا مسح کیا ہاتھو ں کو آگے لے گئے پھر پیچھے لے گئے۔سر کے اگلے حصے سے شروع کر کے گدی تک لے گئے پھر انہیں وہیں واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا۔پھر پاؤں دھوئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے گہری غور و فکر سے سارے سے کو گھیرنے کے وجوب کی طرف اشارہ کیا ‘اور یہی حق ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے بیان کرنے والے بن کر آئے ہیں اور ان سے سر کے کچھ حصے پر مسح کرنے کا اقتصار منقول نہیں۔اگر یہ جائز ہوتا تو کم از کم ایک بار تو کرتے۔مراجعہ کریں فقہ السنہ(1/41)
اور وہ حدیث جسے شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند مین عطاء سے مرسلاً ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا تو آپ نے پگڑی سر سے ہٹا کر اگلے حصے کا مسح کیا‘تو یہ حجت نہیں مرسل ہونے کی وجہ سے اور شاید اسمیں اور ضعف بھی ہو۔اور اسی طرح ہی وضوء کے طریقے کے بارے میں عثمان کی حدیث ہے جسے سعید بن منصور نے نکالا ہے اور اس میں خالد بن زید بن ابی مالک مختلف فیہ ہے جیسے کہ فتح الباری (1/234)میں ہے۔
لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ابن عمر سے صحیح روایت آئی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بعض سر کامسح کرنا کافی سمجھنا ثابت ہے۔ابن منذر رحمہ اللہ تعالیٰ وغیرہ نے بھی یہ کہا ہے اور صحابہ میں سے کسی کا ان پر انکا ر ثابت نہیں۔یہ ابن حزم رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔
میں کہتا ہوں:اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کے علاوہ کسی میں کوئی حجت نہیں‘شاید یہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تاویل ہو‘لیکن ساتھ ہی امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تفسیر (2/267) میں کہا ہے:’’اللہ تعالیٰ کا اپنی قول :’’[وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ ]میں رأس ذکر کیا ہے جسے لوگ بدیہی طور پر جانتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر وضوء میں کیا ‘ چہرے کو دھونے کے لیے متعین کر دیا تو باقی مسح کے لیے رہ گیا اگر دھونےکا ذکر نہ فرمائے تو سر کا وہ تمام حصے جس پر بال ہیں ان کا مسح کرنا لازم آتا اور وہ جہاں آنکھیں ناک اور منہ ہیں۔اور امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے سر کے مسح کے وجو ب میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے جو ہم نے ذکر کیا۔
ان سے پوچھا گیا کہ سے کا بعض حصہ وضوء میں چھوڑا جا سکتا ہے؟تو آپ نے فرمایا:بتائیں!چہرے کا بعض حصہ اگر کوئی (دھونے سے چھوڑ دے تو کفایت کرے گا؟۔
مسح کا لفظ مشترک ہے یہ جماع پر بھی بولا جاتا ہے او ر مسح کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے (مسح الشیء بالسیف) (تلوار سے کسی چیز کو کانٹنا) ومماحت الابل یومھا(اونٹ سارا دن چلے) اور المسحاء اس عورت کو کہتے ہیں جس کے چوتڑنہ ہوں۔
اور یہاں مسح سے مراد خاص کر ہاتھ کا ممسوح پر پھیرنا ہے۔
اور مقبلی رحمہ اللہ تعالیٰ المنار (1/53) میں کہتے ہیں:’’اس کا عام کرنا واجب ہے‘اصل احتیاط اس مسئلے میں اللہ تعالیٰ کے قول’[ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ‘‘میں باء کا داخل ہونا ہے‘نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بالاستمرار فعل جسکا کوئی معارض نہیں یہی واجب الاتباع ہے اور اسمیں فعل کا وہ واقعہ خلل انداز نہیں جس کے لئے عموم نہیں‘‘۔مراد انس کی وہ روایت ہے جو ہم نے ذکر کر دی۔
پھر لوگوں نے اس حرف کے اثر اور ممسوح پر اسکے داخل ہونے میں ضبط سے کام لیا ہے تو کسی نے کہا کہ بائے تبعیضیہ ہے لیکن انکی کوئی دلیل نہیں کیونکہ سیبویہ نے اپنی کتاب میں پندرہ مقامات پر تبعیض کا انکار کیا ہے ۔پھر کہا ہے اگر آپ کہیں :’’مسحت راسی کلہ‘‘اور ’’مسحت راسہ بعضہ‘‘تو پہلے میں تاکید ہے او ردوسرا بدل ہے اور تاکید تکریر کے حکم میں ہوتا ہے اور بدل ایسا نہیں ہوتا ۔معلوم ہوا کہ اس’’کل‘‘کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مستمر فعل کے ساتھ ہے ‘خاصکر بعض جگہوں میں تکرار کے ساتھ کہ جس سے فرض استیعاب ہوتا ہے نہ کہ تثلیث تو بعض اوضح الواضحات ہو گئی۔الحمد للہ۔
اور الکشف القناع(1/98) میں کہا ہے:’’پھر مسح کرے سارے ظاہری سر کا چہرے سامنے بالوں کے اکثر عادی اگنے کی جگہ سے لیکر گدی تک کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سرکے مسح کرنے کا حکم دیا ہے اور چہرے کے مسح کا تیمم میں حکم دیا ہے۔او روہاں مسح استیعاب واجب ہے اسی طرح یہاں (سر کے مسح میں) بھی دونوں میں کوئی فرق نہیں۔اور اسلئے بہی کہ آپ نے تمام سر کا مسح کیا اور آپکا فعل آیت کا بیان واقع ہو رہا ہے اور یہاں باء الصاق کی ہے یعنی فعل کو مفعول کے ساتھ ملانا۔گویا کہ اس نے فرمایا کہ مسح کو اپنے سروں کے ساتھ لگا دو۔یعنی مسح کا پانی۔
اور اگر کہا جائے :’’وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ‘‘(باءکے بغیر) تو وہ اور یہ الگ الگ کلام ہے۔یہاں یہ دلالت نہیں کہ یہاں کوئی او رچیز ہے جسے سر سے لگانا ہے۔جیسے کہ کہا جاتا ہے :’’مسحت رأس الیتیم‘‘اور یہ دعویٰ کہ باء فعل کے ساتھ آتی ہے تو وہ اپنے مجرور میں تبعیض کا فائدہ دیتی ہے لغت کے اعتبار سے ۔تو یہ ناقابل تسلیم ہے دفع اشتراک کی وجہ سے اور ائمہ کے انکار کی وجہ سے۔
ابو بکر رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:
میں نے ابن درید اور ابن عرفہ سے پوچھا کہ باء تبعیض کا فائدہ دیتی ہے ؟تو دونوں نے کہا:لغت میں ہمیں معلوم نہیں۔
ابن برھان رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:جو یہ کہتا ہے کہ باء تبیعیض کے لئے آتی ہے تو یہ اہل عربیت کی طرف سے وہ بات کہتا ہے جو وہ نہیں جانتے۔
اور جو روایت آئی ہےکہ’’سر کے اگلے حصے کا مسح کیا‘‘تو یہ عمامہ سمیت ہے جو واضح طور پر مغیرہ بن شعبہ کی حدیث میں آ چکی ہے اور یہی ہم کہتے ہیں الخ۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسح کے تین طریقے ثابت ہیں:
اول:سارے سر کا مسح ۔عبد اللہ بن زید کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔سرکے اگلے حصے سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں کھینچتے ہوئے اسی جگہ لے آئے جہاں سے ابتدا کی تھی۔اسے جماعت نے روایت کیا۔
دوم صرف پگڑی پر مسح:عمر بن امیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں :میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے تھے(احمد‘بخاری ‘ابن ماجہ) اور بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسح کرو موزوں پر اور خمار (پگڑی )پر۔(احمد)
اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جسے پگڑی کا مسح پاک نہیں کرتی ‘اللہ تعالیٰ اسے پاک ہی نہ کرے‘‘۔اس بارے میں احادیث وارد ہیں جسے بخاری ‘مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے اور اکثر اہل علم سے اس پر عمل وارد ہے۔
سوم:پیشانی اور پگڑی پر مسح:مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا پھر پیشانی وپگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب