سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) وضوء اور غسل میں غرغرے کرنا واجب نہیں

  • 11889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2650

سوال

(159) وضوء اور غسل میں غرغرے کرنا واجب نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضوء اور غسل کرنے والے کے لیے غرغرہ کرنا واجب ہے ؟ اگر روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو اسے افطار کے وقت غرغرہ کرنا چاہئے کیا یہ مسئلہ درست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضوء یا غسل میں غرغرہ کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں،اور نہ ہی جس روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو اس پر بوقت افطار غرغرہ ہے ،بلکہ وضوء کرنے والے اور غسل کرنے والے ناک میں خوب پانی چڑھانا فرض ہے جب انکا روزہ نہ ہو۔جیسے کہ ابو داؤد (1/29)ترمذی (1/41)‘ابن ماجہ (1/70)المشکاۃ (1/76)

میں بروایت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘وہ کہتے ہیں :میں بنی المنتفق کے وفد میں تھاتو میں نے کہا اے اللہ کے رسول !( صلی اللہ علیہ وسلم ) وضوء کے بارے میں مجھے بتائیں!-تو آپ نے فرمایا:

’’مکمل وضوء کر ‘انگلیوں کا خلال کر ‘اور ناک میں خوب پانی چڑھا‘جب تیرا روزہ نہ ہو‘‘۔اور اسکی سند صحیح ہے۔

ابو داؤد میں(1/29) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

جب تم میں سے کوئی وضوء کرتا تو ناک میں پانی ڈال کر جھاڑے ‘‘۔سند اس کی صحیح ہے۔

اور صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جب تم میں سےکوئی نیند سے بیدار ہو کر تو اسے ناک تین بار جھاڑنا چاہیے کیونکہ شیطان اسکی ناک میں ٹھہرا رہتا ہے۔

جیسے کہ المشکاۃ (1/45)میں ہے۔

ان احادیث سے ثابت ہوتاہے کہ وضوء و غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا فرض ہے اور یہی حق ہے‘کیونکہ منہ کو دھونے کا حکم وارد ہے اور یہ دونوں منہ کے دھونے میں شامل ہیں تو منہ کو دھونے کا حکم مضمضہ اور استنشاق کا حکم بھی ہوا۔منہ اور ناک کے چہرے کا علاوہ الگ نام ہونے کا کوئی نقصان نہیں۔رخسار‘آنکھ‘آنکھ کے بال یہ سب چہرے میں داخل ہیں جبکہ انکے اپنے الگ الگ نام ہیں۔

اور اسی پر حدیث مسلمہ بن قیس بھی دلالت کرتی ہے:’’کہ جب تو وضوء کرے تو ناک جھاڑ‘‘۔

(ترمذی(1/10)نسائی (1/27)

اور لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کے حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے اور اسی حدیث کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:’’جب تو وضوء کرے تو کلی کر‘‘۔(ابو داؤد:1/21) وغیرہ‘حافظ نے  فتح الباری میں اسے صحیح الاسناد کہا۔

وجوب کے دلائل میں سے وہ حدیث ہے جسے دار قطنی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا حکم دیا۔پھر دار قطنی نے کہا کہ اسے ہدبہ اور داؤد بن المجبر کے علاوہ نے کسی نے موصول نہیں کیا‘انکے علاوہ دیگر راوی عن عمار عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سےمرسل بیان کرتے ہیں۔میں کہتا ہوں :یہ کوئی نقصان والی بات نہیں کیونکہ ہدبہ صحیحن کا راوی ہے‘تو اسکا مرفوع بیان کرنا اور روایت کرنے میں منفرد ہونا مقبول ہے۔

اور وجوب کے دلائل میں سے یہ ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مضمضہ اور استنشاق پرمدامت کی ہے اور ایک بار بھی انکا انہیں چھوڑنا محفوظ نہیں جیسے کہ امام ابن القیم  رحمہ اللہ تعالیٰ  نے زادالمعاد (1/167) میں ذکر کیا ہے اور یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آنکھ اندر سے دھوئی ہو اگرچہ ایک بار ہی کیوں نہ ہو۔

انہوں نے اپنے مبارک اور مبارک اور طیب عمل سے رب کی کتاب میں جو کچھ نازل کیا گیا ہمیں بیان فرمایا ہے۔

ابو بشر الدولابی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے ثوری کی جو حدیثیں اکٹھی کی ہیں اسمیں ذکر کرتے ہیں کہ ہمیں حدیث سنائی محمد بن بشار نے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں خبر دی ابن مہدی نے سفیان سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ھاشم سے‘وہ روایت کرتے ہیں عاصم بن لقیط سے وہ اپنے والد سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے :’’جب تو وضوء کرے تو مضمضہ اور استنشاق میں مبالغہ کر‘سوائے اسکے کہ تو روزے سے ہو‘‘۔ابو الحسن بن القطان کہتے ہیں :اور یہ صحیح ہے‘‘۔

تو صحیح و صریح امر ہے اور اس پر مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی پر مواظبت فرمائی ہے تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول و فعل سے ثابت ہوا اور اسکے کرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مواظبت بھی ثابت ہوئی۔

اور وجوب کے دلائل میں سے وہ حدیث ہے جو امام بیہقی نے (1/52) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’ مضمضہ اور استنشاق وضوء میں ضروری ہیں‘‘۔اس کی سند میں محمد بن ازہر الجوز جانی ہے۔

لیکن امام بیہقی اسے دوسری سند روایت کرتے ہیں کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی ابو سعید احمد بن محمد الصوفی نے ابن عدی الحافظ سےوہ عبد اللہ بن سلیمان بن الاشعب سے وہ حسین بن علی بن مہران سے وہ عصام بن یوسف سے وہ ابن مبارک سے وہ ابن جریج سے وہ سلیمان بن یسار سے وہ زہری رحمہ اللہ تعالیٰ  سے وہ عروہ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے الخ۔دار قطنی(1/87)

یہ وجوب کے دلائل ہیں جہنیں جانکر آپ سمجھ چکے ہونگے کہ حق یہ ہے کہ  مضمضہ (کلی کرنا)ناک میں پانی چڑھانا اور پھر ناک جھاڑنا فرض ہے۔

اور جو عدم وجوب کے قائل ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:’’دس چیزیں سنن میں سے ہیں‘‘۔

تو ہم کہتے ہیں یہ حدیث بالکل صحیح ہے لیکن وہ ان الفاظ میں ہے:’’دس کام فطرت کے ہیں‘‘-

اسکے علاوہ حدیث میں سنت سے مراد اصطلاحی سنت نہیں اور اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔کی مرفوع حدیث ’’ مضمضہ اور استنشاق سنت ہے‘‘ سے استدلال کرتے ہیں تو یہ حدیث ضعیف ہے جیسے کہ امام دار قطنی نے (1/85)میں روایت کیا ہے اور اسمیں اسماعیل بن مسلم راوی ضعیف ہے۔

اور جو یہ کہتا ہے کہ قرآن میں چہرے کا ذکر آتا ہے اسمیں مضمضہ ‘استنشاق کا ذکر نہیں تو ہم کہتے ہیں :چہرے کے دھونے کا حکم انکا بھی حکم ہے جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا۔اور دوسری بات یہ ہے کہ اسکا وجوب سنت اور امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہوا اور آپ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:’’اور تمہیں جو کچھ رسول دے ‘لے لو‘اور جس سے روکے رک جاؤ‘‘۔الحشر)

مراجعہ کریں :نیل الاوطار (1/171-175)

امام شوكانی  رحمہ اللہ تعالیٰ  السیل الجرار (1/81) میں کہتےہیں:’’میں کہتا ہوں کہ وجوب کا قول ہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں چہرہ دھونے کا حکم دیا ہے اور مضمضہ اور استنشاق کا محل چہرے میں داخل ہے او ر ہر وضوء میں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدامت ثابت ہے اور جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا وضوء اور اسکا طریقہ روایت کرتے ہیں سب ہی روایت کرتے ہیں

تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ چہرے کا دھونا جس کا قرآن میں حکم ہے وہ مضمضہ اور استنشاق سمیت ہے اور اسی طرح مضمضہ اور استنشاق کا الگ سے حکم بھی ثابت ہے پھر لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ۔جیسےکہ تمام المنہ ص (92‘93) میں ہے۔

اور امام ابن حزم  رحمہ اللہ تعالیٰ  نے محلی (1/297) میں صرف استنشاق و استنثار کے وجو ب کا کہا ہے پھر اس سے پر دلائل ذکر کئے ہیں۔مراجعہ کریں۔

اور حجۃ اللہ البالغہ (2/175) میں ہے:وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایسی کوئی صحیح  صریح روایت نہیں ملی  کہ جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بغیر مضمضہ اور استنشاق اور ترتیب کے وضوء کیا ہو۔یہ انتہا ئی درجے کی تاکید ہے۔

مضمضہ لغت میں پانی کو منہ میں حرکت دینے کو کہتے ہیں اور استنشاق ناک سے پانی نکالنے کو کہتے ہیں۔تو ثابت ہوا کا غرغرہ کی کوئی اصل نہیں اور اسی طرح ناک میں انگلی داخل کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔صحیح و صریح سنت میں مضمضہ اور استنشاق یہ ہے کہ پانی کا چلو لیکر آدھا منہ میں ڈالیں اور آدھا ناک میں جیسے کہ عبد اللہ بن زید کی حدیث  میں ہے:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مضمضہ اور استنشاق ایک ہی چلو سے کیا اور یہ فعل تین بار کیا‘‘۔(متفق علیہ)

اور انہیں الگ الگ بھی کر سکتے  جیسے کہ بعض احادیث میں اسکا ذکر ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص362

محدث فتویٰ

تبصرے