سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) وضوء کرنے میں کسی کی مدد لینے کا حکم

  • 11888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1748

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضوء میں کسی دوسرے کی مدد لینا جائز ہے؟ اخوکم سمیع الحق۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا عذر کسی دوسرے سے مدد لینا اور مانگنا کامل متقی کا طریقہ نہیں  کیونکہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں  کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جو مجھے لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگنے کی ضمانت دیے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘تو ثوبان  کہنے لگے:میں ضمانت دیتا ہوں۔تو وہ کسی کچھ نہیں مانگتے تھے۔ (ابو داؤد 1/239)نسائی (1/362) المشکاۃ(1/163)

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوذر رضی اللہ عنہ پر لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگنے کی شرط  لگائی تھی تو انہوں نے موافقت کی تھی‘تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ اگر تیرا کوڑا تجھ سے گر جائے تو اسے بھی خود اتر کر اٹھا لے ۔(احمد5/181)المشکاۃ (1/164)

تو یہ اور اس جیسی دیگر احادیث دلالت کرتی ہیں کہ دوسرے سے مدد مانگنی غیر مستحب ہے‘

لیکن اگر کوئی اپنے بھائی‘بیوی یا دوست سے مدد لے تو یہ جائز ہے۔

کیونکہ ابن ماجہ(1/67)میں باب باندھتے ہیں کہ ’’باب:آدمی کا وضوء کرتے ہوئے کسی سے مدد لینا تاکہ وہ اسے پانی ڈالے‘‘۔

پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں  وہ کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قضائے حاجت کے لیے گئے پھر آئے تو میں آپ کے لئے لوٹا پانی کا لایا میں نے پانی انڈیلا تو آپ نے دونوں ہاتھ دھوئے پھر منہ دھویا یا پھر بازو دھونے لگے تو جبہ کی آستینیں تنگ ہو گئیں اور ہاتھ جبے کے نیچے سے نکالے پھر انہیں دھویا اور موزوں کا مسح کیا اور ہمیں نماز پڑھائی۔

اور بخاری و مسلم ربیع بنت معوذ کی حدیث لائے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لوٹا لائی‘آپ نے کہا:پانی ڈال‘میں نے پانی انڈیلا تو آپ نے منہ ہاتھ دھوئے اور نیا پانی لے کر سرکا آگے اور پیچھے مسح کیا‘اور پھر پاؤں دھوئے تین تین بار۔(ابو داؤدبرقم:117‘122) (1/27) یہ دونو ں حدیثیں دوسرے سے مدد لینےکے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔جب کوئی عذر نہ ہو۔لیکن اگر آدمی کو عذر در پیش ہو مثال کے طور پر ہاتھ یا پاؤں میں زخم ہو تو پھر دوسرے سے مدد لینا کوئی مکروہ نہیں‘بلکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی مدد کریں۔الفقہ الاسلامی(1/252)

ابو البرکات ابن تیمہ رحمہ اللہ نے المنتقی بشرح النیل (1/218)میں ’’باب المعاوہۃ فی الوضوء ‘‘  کے تحت مغیرہ بن شعبہ کی یہی حدیث ذکر کی ہے ،پھر کہا ہے کہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ وضوء میں دوسرے سے مدد لینی جائز ہے لور عترت لور فقہاء اسے مکروہ کہتے ہیں – بحر میں کہا ہے :’’پانی دوسرے کو انڈیلنے کے جواز پر اجماع ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی صحابہ نے پانی ڈالا تھا جب وہ وضوء کرتے تھے ،جو کراہت کے قائل ہیں وہ استدلال کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قول سے جو انہوں نے عمر فاروق کو فرمایا تھا جب وہ آپ کے ہاتھ پر پانی ڈالنے لگے ’’میں وضوء میں کسی سے مدد نہیں لیتا ‘‘-

امام نووی شرح المہذب میں کہتے ہیں :یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں –

بزار اور ابو یعلی نے اسے اپنی مسند میں روایت کیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے بوجہ العضر راوی کے جو جہول ،ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے –

اور اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنا وضوء کا پانی کسی کے حوالے نہیں کرتے تھے –اسے ابن ماجہ لور دار قطنی نے روایت کیا ہے ،اس میں مطہر بن ہیثم راوی ضعیف ہے اور صحیحین 

میں پابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسامہ بن زید سے ہاتھوں پر پانی ڈالنے میں مدد لی –ربیع سے بھی پانی انڈیلے میں مدد لی ، صفوان بن عسال سے بھی پانی انڈیلے میں مدد لی ، ان احادیث سے جہاں تک ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پانے ڈلوانے میں دوسرے سے مدد لیجا سکتی ہے ،اور اس کے جواز پر اجماع ہونا آپ جان سکتے ہیں اور اس میں کوئی کراہت نہیں –نزاع دوسرے سے اعضاء دھلوانے میں ہے –اور جن احادبث میں مدد نہ لینے کا ذکر ہے ان کا ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے اعضاء دھلوانے کے لیے کسی کو پکڑوائے ہوں-اور اسی طرح آپ کے اقوال سے بھی اس کے جواز پر بھی دلالت نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو نمازیوں کو دھونے کا حکم دینا ثابت ہوتا اور ہم میں سے ہر کوئی وضوء کا مامور ہے تو جو کہتا ہے کہ مکلف کے لیے اس میں نائب بنانا کافی ہے تو اس پر دلیل لازم ہے تو ظاہر وہی ہے جو ظاہریہ کہتے ہیں :نائب بنانا کافی نہیں –مطلوب محض اثر نہیں جیسے کہ بعض نے کہا ہے بلکہ تکلیفی امور میں تاثیر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ،کیونکہ اگر کوئی چیز کسی سے مطلوب ہو تو اس کا تعلق لغۃ اور شرحاکرنے والے کی ذات سے اس طرح ہے کہ وہ خود ہی کرے ہاں اگر امام بخاری فرماتے ہیں :’’باب ہے آدمی کا اپنے ساتھی کو وضوء کرانے ‘‘(1/30)

پھر انہوں نے اسامہ اور مغیرہ بن شعبہ کی پانی انڈیلنے  والی حدیث ذکر کی ہے –

امام ابن حجر فتح الباری (1/229) میں کہتے ہیں :

’’یہ دونوں حدیثیں پانی کے انڈیلنے  کے جواز پر دلالت کرتی ہیں لیکن کسی کا دوسرے کے اعضاء وضوء کو دھونا ثابت نہیں ہوتا،

ہاں کسی سے مدد نہ لینا مستحب ہے –

اور ابو جعفر الطبری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ وہ کہتے تھے کہ مجھے کوئی پرواء نہیں کہ میں وضوء میں کسی سے مدد لوں یا اپنے رکوع،سجدے میں کسی سے مدد لوں –تو یہ کسی سے اعضاء وضوء دھلوانے پؤ محمول ہے نہ کہ پانی ڈالوانے پر جس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی وغیرہ نے مجاہد سے روایث کیا ہے کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما پاؤں دھوتے تھے وہ پانی ڈالا کرتے تھے –

اۃر بیہقی کی السنن الکبری (1/83) میں ہے :’’باب آدمی کا اپنے ساتھی کو وضوء کرانا ‘‘پھر پانے ڈالنے کے بارے میں بخاری کی دو حدیثیں نقل کی ہیں تو پانی ڈالنے کا (کسی کو وضوء کرانے کے لیے ) جواز ثابت ہوتا ہے اور مستحب نہیں ہے–

ہم کہتے ہیں :پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے ہاتھ پیر بلاعزر کسی سے دھلوانے جائز نہیں اور اگر عزر ہو تو کوئی حرج نہیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص360

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ