السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
داڑھی کا دھونا بعض کا ہے یا کل کا ہے؟اور گھنی اور غیر گھنی داڑھی کے حکم میں کوئی فرق ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چہرے کے دھونے کی فرضیت کتاب و سنت سے ثابت ہے ‘داڑھی کے کثیقف و خفیف ہونے کا فرق سنت میں نہیں۔
مگر علماء کہتے ہیں کہ گھنی داڑھی میں اندر تک پانی پہچانا واجب نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے وضوء کیا تو اپنا منہ دھویا اور پھر پانی کے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا پھر پانی کا ایک چلو لیکر اسکے ساتھ اس طرح کیا کہ اس کے ساتھ دوسرا ہاتھ ملاکر اسکے ساتھ منہ دھویا‘پھر چلو لے کر اسکے ساتھ دایاں ہاتھ دھویا اور دوسرا چلو لے کر بایاں ہاتھ دھویا پھر سر کا مسح کیا۔پھر پانی کا چلو لے کر دائیں پر چھڑکا یہاں تک کہ اسے دھویا‘پھر پانی کا چلو لے کر بایاں پاؤں دھویا پھر کہا کہ میں نے اس طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا وہ وضوء کیا کرتے تھے۔(بخاری:1/26)
ابو البركات نے اسے منتقٰی مع شرح النیل(1/182)میں ذکر کیا پھر شوکانی نے (1/186)میں کہا ہے:
’’انصاف کی بات یہ ہے کہ اس باب کی احادیث قابل احتجاج سمجھنے اور استدلال کی صلاحیت رکھنے کے بعد بھی وجوب پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ یہ افعال ہیں۔
اور بعض روایات میں یہ بھی وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے اس طر ح میرے رب نے حکم دیا ہے‘‘۔
اس سے بھی امت کے لیے وجو ب کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔کیونکہ اس کا اس کے ساتھ خاص ہونا ظاہر ہے‘اور یہ مستخرج ہے اصول میں مشہور اختلاف پر کہ جس کا آپ کے ساتھ خاص ظاہر ہو وہ امت کے لیے عام ہے یا نہیں‘اور فرائض صرف یقین سے ثابت ہوتے ہیں اور کسی ایسی چیز پر فرضیت کا حکم لگانا جو اللہ تعالیٰ نے فرض نہ کیا ہو تو یہ حکم لگانا ہوا اس چیز پر جس کا معدوم ہونا اللہ نے فرض کیا ہے‘اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں باتیں اللہ کے ذمے وہ باتیں لگانا ہیں جو اس نے نہیں کہی۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چلو گھنی داڑھی والے کے منہ دھونے اور داڑھی کا خلال کرنے کے لیے کافی نہیں اور سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا جیسے کہ بعض نے کہا ہے تکبر ہے۔ہاں احتیاط او راوثق کا اختیار کرنا اسکی اولو یت میں کوئی شک نہیں۔لیکن وجوب کا حکم لگائے بغیر‘‘-انتھی۔
اور المغنی(1/116)میں ہے :’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر داڑھی ہلکی ہو او راسمیں چمڑا نظر آتا ہو تو اس کا باطن دھونا فرض ہے اور اگر گھنی داڑھی ہو تو اس کے نیچے چمڑے کو دھونا فرض نہیں اور یہ اکثر اہل علم کا قول ہے۔ اور عطاء اور ابو ثور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے واجب قرار دیا ہے‘‘۔
تلخیص کے ساتھ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی گھنی تھی اور منقول نہیں کہ انہوں نے اس کا باطن دھویا ہو۔
اور الفقہ الاسلامی (1/216)میں ہے:’’اگر داڑھی گھنی ہے اور چمڑا اس میں نظر نہ آتا ہو تو اس کا ظاہر دھونا ہی فرض ہے او راس کا خلال سنت ہے اور اسکے اندر پانی کا پہچانا واجب نہیں کیونکہ وہاں تک پانی پہچانا مشکل ہے۔
اور اس لییے بھی کہ صحیح بخاری(1/26) میں ہے’’کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا اور ایک چلو سے منہ دھویا‘‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی اور ایک چلو پانی غالباً وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔
اور داڑھی کے جو بال چہرے کے دائرے سے خارج لٹکتے ہوں ‘شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک انکا دھونا فرض ہے‘کیونکہ محل فرض میں اگے ہوتے ہیں اور ظاہر طور پر اس کے نام میں داخل ہیں۔
اور اسلئے بھی کہ مسلم(1/120) میں مروی ہے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے’’پھر جب منہ دھوتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا مگر گر پڑتی ہیں چہرے کی تمام خطائیں داڑھی کے کناروں سے پانے کے ساتھ‘‘-اور حنفیہ او رمالکیہ کہتے ہیں :لٹکتے بالوں کا دھونا فرض نہیں کیونکہ یہ محل فرض سے خارج ہیں اور یہ چہرے کے مسمیٰ میں داخل نہیں۔
میں کہتا ہوں:پہلا قول زیادہ احتیاط والا ہے۔
اور المجموع(1/374) میں ہے’’اور گھنی داڑھی کے ظاہرکا دھونا فرض ہے‘اسمیں کوئی اختلاف نہیں‘اور باطن کا دھونا فرض نہیں اور نہ ہی اس کے نیچے چمڑے کا۔اکثر اہل علم کے نزدیک۔گھنی داڑھی وہ ہوتی ہے کہ جس سے چمڑا چھپ جائے اور خفیہ اس کے خلاف ہے۔(1/375)البدائع والصنائع (1/3)المغنی (1/13)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب