سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) سنت مطہرہ میں کیفیت وضوء

  • 11877
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 2183

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضوء میں مسنون دعائیں کتنی ہیں؟کیا ہرعضودہونےکی کوئی خاص مسنون دعاہے جسطرح بعض متاءخرین ذكر كرتےہیں؟ اخوکم: ابومسلم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس باب میں صحیح احادیث سے ثابت شدہ دعایئں تین ہیں:

اول:وضو کے شروع میں بسم اللہ پرھنا۔ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

"جس کا وضو نہیں اسکی نماز نہیں اور جس نے اللہ کا نام ذکرنہیں کیااسکاکوئی وضو نہیں"

(ابوداؤد/ 15)ترمذی(10/1) ابن ماجہ(1رقم391) ترغیب منذری(164/1) طبرانی،حاکم،امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا۔

رباح بن عبدالرحمٰن بن ابی سفیان بن حویطب سے روایت ہے،وہ اپنی دادی سے اور وہ اپنےوالدسےروایت کرتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا :"جس نے اللہ کانام نہ لیا،اسکاکوئی وضو نہیں ہوا"-

10/1:)ترمذی)لفظ اسی کے ہیں،ابن ماجہ،بیہقی(43/1)

امام ترمذی  کہتے ہیں کہ امام محمد بن اسماعیل البخاری نے کہا:"اس باب میں سب سے اچھی حدیث رباح کی یہ حدیث ہے"-

منذری کہتے ہیں کہ اس باب میں احادیث بکثرت ہیں لیکن کوئی بہی اعتراض ٰسے سلامت نہیں۔حسن،اسحاق بن راھویہ اور اھل ظاہر کا مذہب ہے کہ وضوء میں بسم اللہ کا پرھنا فرض ھے۔ یہاں تک کہ اگرکسی نے عمداً ترک کردیا تووضوءدوبارہ کرے گا۔امام احمدسے بھی ایک روایت اسی طرح ہے۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ اس باب میں وارد ہونےوالی احادیث اگرچہ اعتراض سے سلامت نہیں ہیں۔کثرت طرق سے تائیدپاکرقوی ہوجاتی ہیں۔

لہذااسکی سند حسن ہوجاتی ہے۔

منذری نے(361/1)میں امام ابی بکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں:"یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے:"وضوء سے پہلے جو بسم اللہ نہ کہے اسکا وضوء نہیں ہوتا"-

تسمیہ کے الفاظ اسی باب میں ان شاءاللہ ذکر ہونگے۔

حنفیہ میں امام ابن الہام نے فتح القدیر(20/1)میں دقیق تحقیق کے ساتھ وضوء کے شروع میں بسم اللہ کاوجوب ذکر کیا ہے۔

دوم:وضوء سے فارغ ہونے کے بعد: أشهد أَن لاإله إِلَّا  الله وحده لاشريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله"

سیدناعمربن الخطابؓ سے مرفوعاروایت ہے،تم میں سے کوئی وضوء کرتا ہے اور مکمل وضوء کرتا ہے پھر کہتا ہے،" أشهد أَن لاإله إِلَّا  الله وأن محمداً عبده ورسوله "مگر اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جاتے ہیں جس میں سے وہ چاہے داخل ہو جائے"-(مسلم22/1)المشکاه39/1))

مسلمان کیلئے اس دعا کا لحاظ رکھنا چاہئے کیونکہ اسکی بہت بڑی فضیلت ہے۔ ترمذی میں اس دعا میں مزید یہ لفظ بھی بیان ہوئے ہیں:" اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين"اور اسے ضعیف کہا ہے۔(18/1)

لیکن ثوبان کی حدیث سے اسکے شواہد ھیں جیسے کہ ارواء الغلیل(135/1)،عمل الیوم واللیلہ لابن السنی رقم(30) میں ہے تو حدیث صحیح ھوگئ۔ والحمداللہ۔

سوم:وضوء سے فارغ ہوکر کہے:" سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا اله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك"

(عمل الیوم واللیلہ للنسائی: /43رقم: ،81الحاکم(564/1) الصحیحہ(438/5) رقم(2233)

اور اسکی سند شرط مسلم کے موافق ہے اور ایک روایت میں ہے:اللہ تعالی اس پر مھر لگا کر اٹھالیتے ہیں اور عرش کے نیچے محفوظ کر لیتے ہیں،یہ مھر قیامت تک نہیں ٹوٹتی۔

صحیح احادیث سے یہ اذکارثابت ہیں۔

اوروہ روایت جوابن السنی نے برقم(28)باب الدعاء بین ظھرائی الوضوء)میں اور امام نسائی نےعمل الیوم والیلۃ برقم(80)نقل کی ہےکہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کےپاس آیاآپ نے وضوء کیا پھر آپ سے میں نے یہ کہتے ہوئے سنا:[اللھم اغفرلی ذنبی ووسع لی فی داری وبارک لی فی رزقی]

(اےاللہ میرے گناہ معاف فرمادے،میرے گھر میں وسعت فرمادے،میرے رزق میں برکت عطا فرمادے)

تو میں نے کہااے اللہ کے رسول!میں نے آپ کی فلاں فلاں دعا کرتے ہوئے سنا، تو فرمایا:’’کوئی چیز ترک ہوتی ہے؟تو یہ حدیث صحیح ہے لیکن وضوء کی قید،ابو مجلز اور ابو موسیؓ کے درمیان انقطاع کی وجہ سۃ ضعیف ہے اور اسے ذکر کر کے محمد بن عبدالاعلیٰ ثقات کی مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں،وہ یہ لفظ ذکر کرتے ہیں:(فتو ضا ثم صلیٰ)

اور اسمیں ایک علت اور بھی ہے اور وہ ہے وقف،ابن ابی شیبہ(297/1)بطریق ابو بردہ روایت لاتے ہیں ابو موسی جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا:[اللھم اغفرلی ذنبی ویسرلی امری وبارک لی فی رزقی]اور یہ سند صحیح ہےتو اس سے دلالت ہوتی ہے کہ یہ نماز کے اذکار میں سے ہے،وضو کے ازکار میں سے نہیں-

ظاہر یہی ہے کہ یہ دعا صحیح ہے مطلقا وضوء یا نماز کی کوئ قید نہیں جیسے کہ تمام المنہ ص(92)اور غایۃالمرام ص (85)میں ہے-

اور اس دعا میں انگلی کا اٹھانا سنت میں بھی کہیں نہیں ہے-لیکن نظرکا اٹھانا ابو داود(25/1)میں، ابن السنی رقم(31) احمد(151,150/4)داری(148/1)میں ثابت ہے-ابن عقیلؓ سۃ روایت ہے اور وہ اپنے چچازاد سے ۃہ غقبہ بن عامرؓ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن الخطابؓ نے کہا وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو اچھی طرح وضوء کر کے نظر آسمان کی طرف اٹھا کر کہے:(اشھد ان لا الہ الا اللہ-الحدیث)-اسکی سند ضعیف ہے، ابو عقیل کا چچا زادمجہول ہے اور اس زیادت کے ساتھ اکیلا ہے،تو یہ زیادت منکر ہوئ۔کیونکہ اس حدیث کو مسلم، نسائ،ابوداؤد،ترمزی نے روایت کیا ہے۔تو ابو داؤد کے علاوہ کسی کی روایت میں یہ زیادت نہیں ہے-مراجعہ کریں الا رواء(135/1)رقم(96)-

لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص الحبیر(102/1) میں کہا ہے :

تنبیہ:رافعی کا کہنا"مستقبل القبلة"اس کا ذکر ان احادیث میں نہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا لیکن اسکے لئے اس روایت سے اطمینان ہوتا ہے جو بزاز میں بروایت ثوبان آئی ہے

"جس نے اچھی طرح وضوء کیا اور نظر آسمان کی طرف اٹھائ اور آسمان دعا کا قبلہ ہے"۔

اور پھر سکوت کیا ہے لیکن ہم کشف الاستار اور مجمع الزوائد میں تلاش بسیار کے باوجود ثوبان کی روایت بزاز کی تخریج کے ساتھ نہ پا سکے بلکہ ثوبان کی حدیث ضعیف ہے ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں کہ اسمیں مجہول راوی ہے والله تعاليٰ اعلم۔

وضوء میں سورۃالقدر کا پڑھناثابت نہیں اور نہ ہی مزکورہ دعاؤں کے علاوہ دیگر دعائیں۔اگر کہیں متاخرین نے اسکے علاوہ کسی دعا کا ذکر کیا ہے تو وہ ابتداء ہے کیونکہ مستحب ہونا کسی دعا کا یہ شرعی حکم ہے اور اس کیلئے شرعی دلیل کی ضرورت ہے۔جو موجود نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص348

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ