سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) بعض خون پاک ‘اور بعض پلید ہے

  • 11874
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خون مطلقا نجس ہے یا جیسے کہ کہا گیا ہے پاک ہے ؟اس مسئلے کی تفصیلی وضاحت فر مائی جائے ۔اخو کم مجدی السودانی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے کی  تحقیق یہ ہے کہ خون کی کئی قسمیں ہیں۔ہم یہ تمام اقسام حکم اور دلیل سمیت ذکر کئے  دیتے ہیں۔باذن اللہ وتوفیقہ۔

قسم اول:حیض کا خون:

یہ اتفاقا نجس ہے جس پر صحیح بخاری کی حدیث دلالت کرتی ہے ۔امام بخاری (1؍44) میں کہتے ہیں:’’حیض کے خون کو دھونے کا باب ‘‘اسماء بنت ابی بکر﷜ سے روایت  ہے وہ کہتی ہیں:ایک عورت نے رسول اللہﷺ سے پوچھا :اے اللہ کے رسول!ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا ہے  تو بتا ئیں  وہ کیا کرے ؟تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب تم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون  لگ جائے  تو اسےکھرچے  اور پھر پانی کے ساتھ دھوئے پھر اسمیں نماز پڑھ سکتی ہے ۔

پھر عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت  ذکر کی وہ کہتی ہیں :ہم میں سے کو ئی حائضہ ہوتی جب  پاک  ہوتی ‘اس کپڑے سے خون  کھرچ کر دھو ڈالتی اور سارے کپڑے پر چھینٹے  مارتی  اور پھر اسمیں نماز پڑھتی ۔

یہ دونوں حدیثیں  حیض کے خون کے پلید ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور اسکا دھونا وجب ہے ۔اور حیض کا خون لگے ہوے کپڑے میں نماز نہیں ہوتی ‘نیز حیض کے خون کی بدبو  ہوتی ہے تو اسکے نجس ہونے  اور اسکے دھونے کا حکم ہونے  میں کوئی تعجب نہیں۔

دوسری قسم:دم مسفوح  وغیرہ جو کسی حیوان سے نکلتا ہے وہ مردار اور پلید ہے ۔

اس پر امام قرطبی نے اپنی  تفسیر (2؍221) میں علماء کا اتفاق  نقل کیا ہے کہ خون  حرام اور پلید  ہے ۔امام نوویی﷫  نے شرح  المہذب (2؍557) میں کہا ہے :خون کی نجاست کے دلائل  ظاہر ہیں ‘اور مجھے علمم نہیں کہ  مسلمانوں  میں میں سے کسی نے اس میں اختلاف کیا  ہو ‘سوائے اس کے کہ حاوی والے بعض متکلمین سے یہ حکایت کرتے ہیں کہ وہ اسے پاک کہتے ہیں لیکن اجماع میں متکلمین کا شمار نہیں ہوتا ۔نہ ہی انکی  مخالفت کو شمار کیا جاتا ہے ۔

جمہور اہل اصول کا صحیح  مذہب یہی ہے ‘خصوصا  فقہی مسائل میں

ابن رشد نے بدایۃ المجتہد (1؍57) میں کہا  کہ  علماء کا اتفاق ہے کہ خشکی  کے حیوان کا خون پلید ہے ۔

قسم سوم:

وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ‘اسے شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو اسکا دم مسفوح (بہنے والا خون) ۔اسمیں علماء کے دوقول ہیں ۔

قول اول :یہ خون پاک  ہے ‘اور استدلا ل کرتے ہیں  کہ عبداللہ بن مسعود ﷜ نے اونٹ نحر کیا اور اسکے خون وگوبر سے آلود  ہ تھے کہ نماز کھڑی ہوگئی ۔انہوں نے  جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اور وضوء نہیں کیا۔مصنف عبدالرزاق (1؍125) ابن ابی شیبہ (1؍392) ‘طبرانی کبیر (9؍284) سندصحیح ہے۔اور اسی طرح وہ استد لال   کرتے ہیں اس حدیث سے جیسے امام بغوی ﷫ نے  جعدات (2؍887)میں ابو موسی ٰ اشعری ﷜ سے روایت کیا ہے :’’مجھے کوئی پر واہ نہیں کہ اونٹ نحر کروں اور میں اسکے خون و گوبر  سے لت پت ہو جاؤں اور پھر اسی میں نماز  پڑھوں اور پانی کو  ہاتھ لگاؤں ۔‘‘اسکی سند ضعیف ہے ۔اور وہ استدلال کرتے ہیں کہ قائدہ  یہ ہے کہ براءت  ذمہ نص سے ہوتی جو  مو جود نہیں۔رہا  اللہ تعالیٰ کا یہ قول ﴿أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ﴾ [الأنعام: 145] (يا بہتا ہوا خون  یا خنزیر  کا گوشت ہے ‘کیو نکہ وہ بالکل نا پاک ہے ) تو‘‘ فانہ’’ضمیر کا مرجع لحم خنزیر ہے ‘دم  مسفو ح نہیں ہے۔اور استدلال کرتے ہیں کہ گوشت کھائے جانیوالے جانور کا پیشاب پاک ہے  تو اسی طرح اسکا خون بھی پاک ہے کیونکہ دلیل ایک ہی ہے اور وہ براءت ذمہ۔

دوسر ا قول :یہ دم مسفوح پلید ہے۔

پہلی دلیل:اللہ تعالی ٰکا یہ قول ہے :

﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّ‌مًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ‌ فَإِنَّهُ رِ‌جسٌ أَو فِسقًا...١٤٥﴾...سورة الانعام

’’آپ کہ دیجئے کہ  جو احکام بذریعہ وحی میرے  پاس آے ‘ان  میں  تو میں  کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کیلئے جو اس کو کھائے مگر  وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو  یا خنزیر کا گوست ہو ‘کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے ۔‘‘

اور طریق استدلال یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں :آیت میں  ’’’محرما ‘‘صفت ہے موصوف  اسکا محذوف  ہے ‘تقدیر اسکی یہ ہے شیئا محرما‘‘ اور یکون ‘‘میں جو ضمیر مستتر ہے اسکا مرجع  یہی ’’شیئا محرما‘‘ہے تو معنی ٰ یہ بنا ’’ مگر یہ کہ وہ حرام چیز مراد ہو  الخ‘‘اور ضمیر بارز جو ’’فانہ ‘‘‘میں اسکا مرجع بھی  ہی ’الشیئ المحرم ‘‘ ہے تو معنیٰ بنا :’’یہی حرام چیز رجس (نجس ) ہے ‘‘۔تو اس  آیت میں تین چیزوں (مردار ‘دم مسفوح اور خنزیر کا گوشت) کا حکم  اور علت دونوں  بیان ہوئی ہیں اور جو قول ‘فانہ ‘‘کو صرف ’’لحم خنزیر ‘‘پر ہی مقصود  رکھتے ہیں کیو نکہ یہ سب سے  زیادہ  قریب  ہے اور متصور کرنے میں قصور ہے کیونکہ ایک تو  اس سے ضمیروں میں تفریق ہو جاتی ہے  اور دوسرا بیان قرآنی میں لازم  آتا ہے کیونکہ حکم تو تینوں ( المیتۃ ‘الدم المسفولحم الخنزیر ) کا ذکر  کرتا ہے اور حکم کی علت صرف ایک ہی بیان کرتا ہے  اور اسی طرح جو ’’انہ رجس ‘‘کو لحم الخنزیر پر مقصو د رکھتا ہے اور علت  یہ بیان کرتا ہے کہ اگر ضمیر تینوں کیلئے  ہوتی  تو کہتے (فانھا )یا (فانھن )  تو جواب اسکا یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ضمیر ان تینوں کیلئے  ہے بلکہ یہ ضمیر  تو عائد اس ضمیر مستتر کی طرف جو ’’یکون‘‘میں ہے اور رجس سے خبر  دی گئی ہے احد الامور الثلا ثۃ کے ساتھ۔

دوسرا وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گوشت کھائے جانے والے حیوان کے دم مسفوح اور مردار سے نکلنے والے خون میں کوئی فرق نہیں اور اسی پر دلالت کرتے ہیں علماء کے وہ اقوال جو قسم ثانی میں ذکر ہوے ۔ احتباط اسی قول میں ہے ۔

قسم چہارم:انسان سے بہنے والا خون :

اسمیں بھی دو قول ہیں : ایک تو یہ ہے کہ ہ نجس  ہے ۔یہ لوگ ظاہر نصوص سے استدلال کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب احد کے دن زخمی ہوئے  تو فاطمہ  رضی اللہ عنہا بنت رسو ل اللہ ﷺ وہ خون دھو رہی تھیں اور علی  بن ابی طالب ﷜ ڈھال سے  پانی انڈیل  رہے تھے ۔(صحیح مسلم :2؍107)بخاری (2؍584)

دونوں حدیثوں کے راوی سہل بن سعد ہیں ۔لیکن حدیث سے انسان کے زخم  سے بہنے والے  خون کی نجاست پر استدلال کئی وجوہ سے ضعیف ہے ۔

اول وجہ:یہ دھونا طہارت شرعی کے لیے نہیں تھا ‘اظافت کے لیے تھا۔

دوسری وجہ:یہ دھونا علاج کے لیے تھا کیونکہ پانی کے ساتھ خون رک جاتا ہے تو دھونا بغرض علاج تھا ‘ نہ اس لیے کہ وہ نجس تھا ۔تیسری وجہ:اگر ہم  تسلیم کر لیں تو یہ مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اور زخم سے بہنے والا خون حیض پر قیاس کرتا ہے تو قیاس مع الفارق ہے ۔ طاہر کو نجس پر قیاس کیا ‘حیض کا خون بالاتفاق  نجس ہے اور  انسان کے زخم سے بہنے والا خون پاک ہے ۔ راجح قول یہی ہے ۔

دوسرا قول :انسان کے زخم سے بہنے والے خون کا دھونا واجب نہیں ‘اس کے ساتھ نماز پڑھنی درست ہے اور اس کے نکلنے سے وضوء نہیں  ٹوٹتا  ‘ہاں !اسے دھونا اور اس سے وضوء کرنا  مستحب ہے ‘اور اس  پر درج ذیل  دلائل  سے استدلال کرتے ہیں۔:

پہلی حدیث : جابر ﷜ کہتے ہیں  کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ  غزوہ ذات الرقاع میں نکلے ‘اور اس حدیث میں ہے ’’انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگا ۔ایک آدمی آیا اس نے دیکھا  کہ یہ قوم کے محافظ  ہیں تو اس نے  اسے تیر مارا تو اس نے اسے  رہنے دیا  یہاں تک کہ اسے تین تیر مارے پھر رکو ع سجدہ کرنے (اور سلام پھیرنے ) کے بعد  اپنے  ساتھی کو متنبہ کیا ‘جب دشمن نے  دیکھا کہ یہ چوکنے ہیں تو بھاگ گیا ‘جب مہاجر نے انصاری ﷜ کا خون دیکھا تو کہنے لگا :سبحان اللہ جب تمہیں پہلی  بار تیر لگا تو مجھے مطلع کیو ں نہ کیا ؟۔اس نے کہا میں ایک سورۃ پڑھ رہا تھا تومیں نے قطع کرنا پسند  نہیں کیا۔بخاری (1؍29) تعلیقا وابو داؤد )(ورواہ احمد)

یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے کیونکہ  عادۃ یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کو اس کی  اطلاع  نہ ملی ہو۔اگر یہ خون پلید ہوتا اور اس سے وضوء ٹوٹتا  تو رسول اللہﷺ  ضرور بیان کر دیتے  کیونکہ بیان کو ضرورت کے وقت موخر کرنا جائز نہیں ۔ جیسے  کہ علم الاصول  میں یہ مسلم ہے ۔

فرض کرو ‘اگر نبی ﷺ پر  یہ مخفی ٰ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ سے مخفی  نہیں رہ سکتا ۔ کیو نکہ اللہ تعالیٰ  سے زمین و آسمان کی کو ئی چھپی ہوئی چیز نہیں  ہے ؏اگر یہ ناقض یا نجس  ہوتا  تو اللہ تعالیٰ  اپنے نبی کو وحی  کے ذریعے مطلع فرما  دیتا ‘واضح  ہے کسی سے مخفی نہیں ۔ یہ چیز  مذہب امام بخاری کا ہے ۔اور  اکثر  محققین کا ہے ۔

اور اسی طرح  استدلال کرتے  ہیں اس حدیث  سے امام  بخاری نے (1؍29) میں  حسن سے تعلیقا  ذکر کیا ہے :ما زال المسلمون یصلون فی جراحاتهم (مسلمان  ہمیشہ اپنے زخموں میں نمازیں پڑھتے رہے )٭۔ابن حجرنے فتح الباری (1؍226) میں کہا ہے اور یہ ثابت ہے کہ عمر نے نماز پڑھی حالانکہ انکے  زخموں سے خون  بہہ رہا تھا۔٭ پھر  امام بخاری نے فرمایا کہ طاؤس ‘محمد بن علی ‘عطاء اور اہل حجاز کہتے ہیں کہ خون میں وضوء کرنا نہیں ہے اور ابن عمر نے پھنسی کو دبا کر خون نکالا  اور رضوء نہیں کیا۔٭اور ابن ابی اوفیٰ نے تھوک میں خون نکالا اور نماز پڑھتے  رہے۔٭اور ابن عمر اور حسن نے سنگی لگوانے کے  بارے میں کہا کہ اس پر سینگی لگانے والی جگہ کے دھونے  کے علاوہ کچھ نہیں۔

ان صحیح آثار سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ۔(1)۔خون کے نکلنے سے وضوء کا ٹوٹنا۔

(2)۔انسان کے زخم سے نکلنے والے  خون کی طہارت ۔

ابن ابی شیبہ نے (1381) میں جابر سے روایت لائے ہیں کہ انہوں نے ناک میں انگلی داخل کی تو اس سے خون نکلا تو انہوں نے زمین پر اسے مٹی سے مل دیا اور نماز پڑھی ۔اورابو ہریرہ سے روایت ہے کہ  وہ اپنی ناک میں انگلی دخل کرتے  تو اس پر خون  نکلتا  تو اسے ہٹاتے اور نماز پڑھتے ۔ اسکی سند مجہول ہے ۔

سعید بن مسیب   سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی  انگلی ناک میں داخل کی   تو خون نکلا آپ نے اسے پو نچھ دیا اور نماز  پڑھی  اور وضوء نہیں کیا ۔اور استدلا ل کرتے ہیں  انسانی اجزاء اگر کاٹ دیئے جائیں  تو وہ پاک ہونگے  اکثر اہل علم  کے نزدیک ‘تو خون  بطر یق اولیٰ پاک ہے ۔

پہلے قول والوں  نے صحابہ کرام سے مر وی ان آثار کا دو طرح جواب دیا ہے:

پہلی وجہ:ہو سکتا  ہے کہ یہ معمولی خون ہو جو معاف ہے ‘جیسے ابو ہریرہ   سے روایت ہے کہ وہ نماز میں قطرہ قطرہ خون نکلنے  میں کوئی حرج محسوس  نہیں کرتے تھے۔(ابن ابی شیبہ)

دوسری وجہ:یا و ہ خون اتنا زیادہ ہو کہ اس سے بچنا  ناممکن ہو ۔جیسے وہ حدیث  امام مالک  نے اپنی موطا  میں مسور بن کخرمہ سے روایت  کیا ہے  کہ عمر  بن خطاب کو جب خنجر مارا گیا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور انکا خون بہہ رہا  تھا ‘ تو اس سے  بچنا ناممکن تھا  اگر اسے دھو  بھی  لیا جاتا   تو خون مسلسل بہہ وہا تھا ‘وھونے کا کو ئی  فائدہ نہ تھا۔اور اسی طرح اگر کپڑے تبدیل کروئے  جاتے تو دوسرا کپڑا بھی خون آلو د ہو جاتا ۔تو کپڑے  تبدیل کرنے کا بھی کوئی  فائد ہ نہ تھا ۔٭صحابہ کرام سے وارد ان دو وجہوں کے علاوہ  دوسری کوئی وجہ  نہیں  تو ان دو وجہوں سے خون کی طہارت کا اثبات  ممکن  نہیں۔

اولین پہلی وجہ کا جواب دے سکتے ہیں کہ ابوہریرہ کی حدیث ضعیف ہے اور آثار  میں قلیل وکثیر کا  ذکر نہیں ‘وہ کون  ہے جو کم خون کو پاک کرنے والا ہے اور زیادہ کو نجس  قرار دیتا ہے ۔ہم پہلے  بیان کر چکے  کہ شرعی نجاست  قلیل  ہو یا کثیر اس کا زائل کرنا فرض ہے۔

  دوسری وجہ کا جواب:جب قلیل  خون کی  نجاست  ثابت نہ ہوئی تو کثیر کی نجاست  کا استثناء کہا ں سے آیا۔اور نبیﷺ  یا صحابہ کرام نے یہ کہاں کہا  ہے کہ وہ خون  جس سے بچنا ممکن نہ ہو وہ پلید ہے ؟۔

بہتر یہ ہے کہ اس سے بچا جائے  کیونکہ حدیث سے ثابت ہے :وہ چیز  چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور وہ چیز لے لو جو تمہں  شک میں نہ ڈالے ۔‘‘اور اسی طرح یہ بھی ثابت  ہے ’’جو مشتبہ اشیاء  سے بچتا رہا ‘ اس نے اپنے دین اور  عزت کو بری کرا لیا ۔‘‘یہ شرعی قوئد  ہیں اور خون کا دھونا  آدمی کے لیے  کوئی مشکل  کام نہیں ’اس کا دھونا افضل  اور  اولیٰ ہے۔

پانچویں قسم:مچھلی کا خون

تو وہ پا ک ہے کیونکہ جب وہ مردہ وہ تو  پاک ہے ۔یہ دلیل ہے اسکے خون کی طہارت کی ‘مردار کی حرمت اسمیں خون باقی  رہنے کی وجہ سے ہے ۔دلیل نبی ﷺ کا یہ قول ہے :جو چیز خون بہا دے  اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کر لیا جائے تو اسے کھا ‘‘۔نبی  کریمﷺ نےحلال  ہونے کا سبب دو چیزیں قرار دی ہیں  ایک خون  بہانا ۔ دوسرا اللہ کا نام ذکر کرنا۔پہلا سبب حسی  ہے اور دوسرا معنوی۔اور یہ بھی ایک دلیل ہے گوشت کھائے جانیوالے  حیوان کے دم مسفوح کی نجاست کی ۔خون کی باقی  رہنے کی وجہ  سے یہ حرام ہوگا ‘اور کسی نے کہا  ہے یہ خون کے نجس ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ یہ حرام  ہے بسبب حرام  کے  باقی رہنے کے  جو خون ہے  نہ کہ نجس  کے باقی رہنے کے ۔یہ تو مصادر علی المطلوب ہے ۔

چھٹی قسم :مکھی ‘مچھر  ارو شہد کی مکھی اور ان جیسی چیزوں کا خون

تو یہ پاک ہے کیونکہ یہ اگر مر بھی جائیں تو پا ک ہیں جیسے  حدیث ابو ہریرہ سے  ثابت ہوتا ہے کہ اسمیں اسے ڈبونے کا حکم ہے جب وہ مشروب میں گر جائے  تو بعض  مشروب گرم ہوتے ہیں  جس سے وہ مر جاتے ہبں  جس  اور یہ دلیل ہے انکے  خون کے  پاک ہونے کی جیسے کہ مردار کے حرام ہونے کی علت  پہلے  بیان ہو چکی ۔

ساتویں قسم : دبح شدہ حانور کی جان نکلنے کے بعد جو  خون باقی رہتا ہے 

تو وہ بھی پاک ہے جسطرح اس جانور کے تمام اجزاء پاک ہیں ‘شرعی ذبح کے ساتھ اور اسی طرح خون بھی پاک ہے جیسے دل کا خون اور تلی کا خون ۔ اسیی لئے صحابہ کرام  گوشت کو نہیں  دھویا کرتے تھے ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : ہم گوشت  کھاتے تھے اور خون  خطوط کی شکل  میں ہنڈیا  پر نمایاں ہوتا  تھا ۔شیخ الاسلام نے اپنے فتاویٰ (21؍522) میں نے کہا  ہے کہ بھنا  ہوا گوشت اور ٹکڑے ٹکڑے  کیا ہوا گوشت کھانا جائز ہے ‘دھو کر پکایا گیا ہو یا  بغیر دھوئے پکایا  ہو‘بلکہ ذبیحے کا گوشت دھونا بدعت ہے  بلکہ صحابہ کرام تو دھوئے بغیر  پکا کر کھاتے تھے اور وہ ہنڈیا میں خون کی لکیریں دیکھتے  تھے  ۔پھر فرمایا : یہ ثابت ہے  کہ  وہ گوشت ہنڈیا میں ڈالتے  تھے  تو پانی میں خون کی  لکیریں نمایاں ہوتی  تھیں  اور اس کے معاف  ہونے میں مجھے کوئی اختلاف معلوم نہیں اور اس کے نجس  نہ ہونے پر اتفاق ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص337

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ