السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ جو عطروں میں الکحل استعمال ہوتی ہے جنہیں کپڑو ں پر لگایا جاتا ؟ کیا ان کپڑ وں میں نماز درست ہے ؟اخوکم نورالحق۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ شراب کے طاہر و نجس ہونے پر مبنی ہے راجح بات یہں ہے کہ شراب کتاب و سنت اور اجماع امت سے حرام ہے اور اس کی نجاست معنوی ہے حسی نہیں کیونکہ اس کے نجس ہونے پر کوئی دلیل نہیں تو حرام اور پاک ہو اور حرام پلید نہیں ہوا کرتا ۔
یہی قول ربیعہ بن ابی عبد الرحمان المعروف (ربیعہ الرای) کا ہے تہذیب میں ہے
کہ نہوں نے بعض صحابہ او ر اکابر تابعین کو پایا ہے اور یہ مدینہ میں صاحب فتویٰ تھے۔مدینہ کے بہت سے لوگ ان کے پاس اکتساب علم کے لیے بیٹھتے تھے ۔ ان کی مجلس میں چالیس پگڑ ی پوش بیٹھتے تھے ۔ امام مالک نے انہی سے اخذ کیا ہے ۔یہی لیث بن سعد مصری الفقیہ نے کہا ہے جو مشہور امام ہیں ان کی فضیلت کا اعتراف بڑے ائمہ نے کیا جن میں امام مالک بھی شامل ہیں انہوں نے ان کی طرف لکھے ہوئے ایک خط میں اس کا اعتراف کیا ہے ۔بلکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ لیث مالک سے بڑے فقیہ ہیں لیکن ان کے شاگر ان کے ساتھ قائم نہیں رہ سکے ۔
ابن بکیر کہتے ہبں لیثمالک سے بڑے فقیہ ہیں لیکن حصہ امام مالک کہ ہے۔امام شافعی کے شاگرد اسماعیل بن یحییٰ المزنی نے بھی یہی کہا ہے ۔ اور امام شافعی کی طرف منسوب مجتہد امام ہے جیسے کہ امام نووی نے المجموع (1؍72) میں کہا ہے ۔
اور انکے علاوہ کثیر متاخرین بغدادیوں کا یہی خیال ہے کہ شراب پاک ہے ’حرام تو اس کا پینا ہے ‘ جیسے تفسیر القرطبی (6؍88) میں ہے ۔اور یہی راجح ہے ‘کیو نکہ ہم ذکر کر چکے کہ اشیاء میں اصل طہارت ہوتی ہے ‘ جب تک کوئی مانع نہ ہو ‘اور معارض دلیل موجود نہ ہو ۔مراجعہ کریں تمام المنہ(54) اکثر علماء شراب کی نجاست کے قائل ہیں لیکن دلیل کے اعتبار سے قول اول راجح ہے ۔لیکن اگر کوئی اپنے دین ‘ اپنی عزت کو بچانے کے لیے احتیاط کرتا ہے تو اور بات ہے اور الکحل کا بوقت ضرورت زخموں میں استعمال جائز ہے کیونکہ مشتبہ کا اشتبا ہی حکم بوقت ضروت زائل ہو جاتا ہے۔
شراب کے حسی طو ر پر پاک ہونے کی دلیل متعدد اشیاء ہیں:
1:اللہ تعالی ٰ نے سورۃ المائدہ میں اسکےساتھ رجس کی قید لگاتے ہوے فرمایا:
تو یہ عمل رجس ہے عینی اور ذاتی رجس نہیں:
﴿رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ ...٩٠﴾...سورة المائده
دلیل اللہ تعالی ٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ ...٩٠﴾...سورة المائده
اور یہ معلوم ہے کہ جوا ’تھان اور تیر حسی طور پر نجس نہیں ‘یہ چاروں ایک ہی صورت میں اکٹھے بیان کئے گیے ہیں تو قائدہ یہی ہے کہ یہ سب اس صفت میں متفق ہیں ۔ جب باقی تین کی نجاست معنوی ہے تو اسی طرح شراب کی نجاست بھی معنوی نجاست ہے کیو نکہ یہ شیطانی عمل ہے ۔
2)۔یہ ثابت ہے کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مسلمانوں نے اسے بازاروں میں بہا دیا اگر یہ پلید ہوتی تو اس کا بازارں میں بہانا جائز نہ ہوتا کیو نکہ یہ بازاروں کو نجاست سے ملوث کرنا ہوا اور یہ جائز نہیں۔
(3)۔جب شراب حرام ہوئی تو رسو ل اللہﷺ نے بر تنوں کے اس سے دھونے کا ضرور حکم فرما تے ‘جس طرح کہ آپ نے گھر یلو گدھوں کے گوشت کی حرمت کے وقت برتنوں کو اس سے دھونے کا حکم دیا تھا۔
(4)۔صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ ایک شخص شراب کی مشک لے کر آیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا ‘تو رسول اللہﷺنے فرمایا :تمہیں معلوم نہیں کہ شراب حرام ہو چکی ۔‘‘پھر ایک شخص نے اس کے ساتھ سرگوشی کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :تم نے کیا کہا ؟اس نے کہا کہ میں نے اسے بیچ دینے کا کہا ‘تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی ٰ جب کوئی چیز حرام فرماتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ‘‘تو اس شخص نے مشک کا منہ پکڑ کر ساری شراب بہادی ۔نبی ﷺ نے اسے مشک کو شراب سے دھونے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی اسے وہاں بہانے سے روکا ‘تو دلیل ہے کہ شراب حسی طور پر پلید نہیں ۔اگر حسی طور پر پلید ہوتی ‘آپ اسے وہاں بہانے سے روکتے اور دھونے کا حکم بھی فرماتے۔
(5)۔اصل اشیاء میں طہارت ہوتی ہے ‘یہاں تک کہ ایسی کوئی راضح دلیل مل جائے
جس سے اس چیز کی نجاست پر دلالت ہوتی ہو۔جب کسی چیز کی نجاست کیلیے دلیل نہ ہو ‘تو وہاں اصل یہی ہے وہ پاک ہے ‘لیکن یہ معنوی اور علمی اعتبار سے خبیث ہے اور کسی چیز کے حرام ہونے سے اسکا نجس ہونا لازم نہیں آتا۔آپ دیکھتے نہیں زہر حرام ہے لیکن پلید نہیں ہے ‘ساری نجس اشیاء حرام ہیں لیکن ساری حرام نجس نہیں ہیں۔
اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ کولو نیا اور اسکی مشابہ چیزیں پلید نہیں ہیں کیونکہ خمر ذاتی طور پر پلید نہیں اس قول کے مطابق جس کے ہم نے دلائل ذکر کر دئے تو کولو نیا اس جیسی چیزیں نجس نہیں ہیں جب پلید نہیں تو کپڑوں کا اس سے پاک کرنا واجب نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب