سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) میت کے لیے قرآن مجید کا ایک ایک پارہ پڑھنا

  • 11869
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1514

سوال

(65) میت کے لیے قرآن مجید کا ایک ایک پارہ پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا جائز ہے کہ قرآن مجید تیس اجزاء(پاروں) میں تقسیم کرکے ہر پارے کی   مستقل طور  اس طرح الگ الگ جلد بنادی جائے کہ ایت کریمہ کا کچھ حصہ ایک پارے میں  جب کہ اسی آیت کا دوسرا حصہ اورپارے میں ہو اور یہ پارے مختلف  آدمیوں کو( پڑھنےکےلیے )دیئے جائیں اور تما م مسلمان حاضرین مجلس تقریبا نصف گھنٹے میں  پورا قرآن مجید ختم کرلیں پھر کہاجائے کہ یہ مکمل قرآن مجید فلاں میت کی روح کے ایصال ثواب کےلیے ختم کیاگیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سلسلہ میں پہلی بات تویہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کو سات منزلوں میں تقسیم کرلیتے  اور اس   طرح  ان اکثر وبیشتر حضرات سات دنوں میں قرآن مجید  ختم کیا کرتے تھے۔

مسند احمد اور سنن ابی داود میں اوس بن ابی اوس سےمروی ہے  وہ فرماتے ہین کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم قرآن کی تقسیم کس طرح کیا کرتے تھے؟ انہوں نےکہا ہم اسے تین پانچ سات نو گیارہ اور تیرہ حصوں میں تقسیم کلیا کرتے تھے اور حزب  مفصل کو الگ پڑ ھ لیتے تھے۔

(سنن ابی داود شھر رمضان باب تحزیب القرآن حدیث:1393ومسند احمد343‘9/4‘)

 حروف کی تعداد کے اعتبار سے قرآن مجید کو تیس پاروں اور ساٹھ احزاب میں تقسیم کرنے کی ابتداء عراق میں حجاج کے زمانہ میں اس کے حکم سےہوئی   تھی پھر عراق سےیہ تقسیم سارے عالم میں پھیل گئی حالانکہ پہلی تقسیم زیادہ بہتر ہےکیونکہ صحابہ کرام  او رتابعین کےہاں یہی تقسیم معروف تھی اور پھر اس  میں معنی کی تکمیل اور قصہ کےاختتام کےپہلوکو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جب کہ حجاج کی اس تقسیم کے مطابق بسا اوقات معنی کی تکمیل اور قصہ کا اختتام نہیں ہوتا۔

آپ نےجو یہ ذکرکیا ہےکہ ایک آیت کا کچھ  حصہ ایک مجلد پارہ میں جب کہ اسی  آیت کا بقیہ حصہ دوسرے مجلد پارہ میں ہوتا ہے جو کہ کسی اور شحص کے ہاتھ میں ہوتا ہےاور وہ  اسے پڑھتا ہےتو  قرآن مجید کے پاروں کی اس  انداز میں جلد بندی ابھی تک ہمیں معلوم نہیں ہوسکی اور نہ کسی مسلمان کےلیے اس طرح کرناجائز ہے۔

ثانیا: حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ عمل نہیں تھا کہ وہ اس طرح مختلف لوگوں میں قرآن مجید  تقسیم کرکے پڑھتے ہوں اور پھر مجموعی قراءت کو ایک مکمل قرآن قرار دیتے  اور کسی میت کی روح کےلیے ایصال ثواب کرتے ہوں بلکہ ان  کامعمول یہ تھا کہ ہر شخص اپنے طور پر جس قدر ممکن ہوتا  قرآن مجیدپڑھتا تھا۔یا وہ اسے متعدد راتوں یادنوں  میں ختم کرتا تھاتاکہ وہ سارے قرآن  سے استفادہ کرسکے اور اس وہ اللہ سے ایصال ثواب کےلیے قرآن مجید پڑھا ہویا آپ ﷺ نےکبھی بھی مردوں کو اپنی تلاوت کا ثواب بخشا ہو اور یادرہے کہ ہر طرح کی خیر وبھلائی آپ ﷺ کی اتباع آپ کی اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت وسیرت کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص62

محدث فتویٰ

تبصرے