السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ جبکہ مینگنیاں پڑی ہوں اور بچھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔اخوکم سعدات
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راجح یہی ہے کہ جن کا گوشت کھا یا جاتا ہے ان کا گوبر اور ان کی مینگنیاں پاک ہیں اور نماز اس پر جائز ہے دلائل یہ ہیں۔
اول: ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :بکریوں کے باڑے میں نماز پڑو اور اونٹوں کے باڑے میں نماز مت پڑو ۔ ترمذی (1؍81) (برقم :348) المشکوٰۃ(1؍21)۔
جب نبیﷺ نے بکریوں کے باڑے میں نماز جائز فرما دی تو اس سے ثابت ہوا کہ ان کا پیشاب اور مینگنیاں پاک ہیں اور اونٹوں کےباڑے میں نماز سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اونٹ شیاطین ہیں ۔جب کہ نبی ﷺ نے بکریوں کے باڑے میں نماز جائز فر ما دی تو اس سے ثابت ہوا کہ ان کا پیشاب اور مینگنیاں پاک ہیں اور اونٹو ں کے باڑے میں نماز سے ممانعت کی وجہ اور ہے اورہو ہے کہ اونٹ شیطان ہیں ۔
دوم :انس بن مالک سے رویت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھتے تھے پھر میں نے ان سے سنا وہ کہتے تھے کہ آپﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھتے تھے مسجد بنانے سے پہلے جو کہتا ہےکہ میں نے سنا ’’اس کا قائل ابو التیاح ہے وہ روایت کرتا ہے انس سے (بخاری)(1؍37۔61)تو یہ صریح دلیل ہے کہ آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تھے اور یہ منقول نہیں کہ آپ کچھ بچھاتے تھے ۔
سوم : امام بخاری کہتے ہیں ’’ یہ بات ہے اونٹوں جانورں اور بکریوں کے پیشاب اور ان کے باڑوں کے بارے میں‘
ابو موسیٰ نے دار البرید میں نماز پڑھی جہاں لید پڑی تھی اور پہلو میں جنگل تھا تو انہوں نے کہا کہ (طہارت میں) یہاں اور وہاں برابر ہے (1؍36) حافظ نے فتح الباری (1؍267) میں کہا ہے اسے امام بخاری کے شیخ ابن نعیم نے موصول بیان کیا ہے ۔ سفیان ثوری نے اپنی مسند میں موصول بیان کیا ہے۔
چہارم :ابن عباس سے روایت ہے کہ عمر بن الخطاب کو تنگی کی گھڑیوں کا حال بیان کرنے کا کہا گیا تو فرمانے لگے ہم سخت گرمی میں تبوک کی طرف نکلے ایک جگہ ہم اترے تو ہمیں سخت پیاس لگی یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوا ہماری گردنیں ٹوٹ جائیں گی ۔یہاں تک کہ ایک آدمی اونٹ کو نحر کر کے اس کا گوبر نچوڑ کر پیتا ۔ اور باقی ماندہ کو
کو اپنے کلیجے پر رکھتا ۔تو ابو بکر صدیق کہنے لگے یا رسول اللہ !ﷺ یقینا اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا میں خیر کا وعدہ کیا ہے تو آپ دعا فر مائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ یہ چاہتے ہیں ’ کہنے لگے ہاں ۔ تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ابھی ہاتھ واپس نہیں لوٹا ئے تھے کہ آسماں گرجا اور سایہ فگن ہوا پھر برسا ۔ تو ان کے پاس جتنے برتن پانی کے تھے سب بھر لئے پھر ہم دیکھنے لگے تو (آسمانوں پر) کچھ نہیں پایا ۔ اور لشکر گزر گیا۔حاکم(1؍159) نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد اور شیخین کی شرط پر ہے ۔ لیکن انہوں نے اپنی صحیحین میں ذکر نہیں کیا ۔
اور یہ حدیث عجیب سنت کو متضمن ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر پانی اس جانور کے گوبر میں ملا ہو جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ہو وہ پلید نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر وہ پلید ہوتا تو رسول اللہﷺ اس کی کو جگر پررکھنے کی اجازت نہ دیتے تا کہ پلید ہو۔
امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
پنجم:تمام چیزوں میں اصل طہارت ہے یہاں تک کہ اس کی نجاست واضح ہو جائے ہمیں اس کی نجاست ظاہر نہ ہوئی تو یہ پاک ہے اور جو اس کے پلید ہونے کا قائل ہے تو دلیل پیش کرے جس سے اس کا نجس ہونا ثابت ہو ۔
ششم:انس کی حدیث میں ہے کہ عرینہ کے کچھ لو گ مدینہ آئے مدینہ کی آب و ہوا ان کے موفق نہ ہوئی اور حدیث میں ہے ’’ پیوان کا پیشاب اوردودھ’’(1؍36)مسلم (2؍57)اور اصحاب اسنن ۔ اور یہ واضح دلیل ہے ساری امت کے لیے ‘اس میں کوئی تخصیص کا لفظ نہیں۔
ہفتم: وہ مشہور حدیث کہ رسول اللہﷺ نے اپنی سواری پر طوف کیا اور اسے مسجد میں داخل کیا جسے زمین کے تمام قطعات پر فضیلت دی ۔یہاں تک کہ سات چکر لگائے۔اور اسی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی سواری کی حالت میں طواف کی اجازت دی ۔بخاری (1؍221)مسلم(1؍413)
اور یہ بات تو معلوم ہے کہ جانورں کی اتنی عقل نہیں ہوتی کہ تلویث رک جائے جسے پاک کرنے کا حکم ہے اگر ان کا پیشاب مینگنیاں نجس ہواتیں تو اسمیں مسجد کو پلید کرنے کا اشارہ تھا جب کہ ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔
ہشتم :مدینہ میں آتا ہے جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہبں۔کہا گیا ہے یہ موقوف ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مر فوع ہے ۔
میں کہتا ہوں: یہ حدیث ضعیف ہے ‘بیہقی(1؍252) دار قطنی (47) مشکوٰۃ (1؍رقم :516)۔
نہم: ابن مسعود سے روایت ہےکہ رسو ل اللہﷺ کعبے کے پاس سجدے میں تھے تو قریش نے عقبہ ابن معیط کو ان لو گو ں کے پاس بھیجا جنہوں نے اونٹ نحر کیا تھا تاکہ وہ اچڑی لا کر رسول اللہ ﷺکی پیٹھ پر رکھ دے جب ہو سجدے کی حا لت میں ہوں اور اور وہ نماز پور ی کر کے نماز سے پھرے۔بخاری (1؍37)
یہ حدیث غیر مفسوح ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قو ل:
﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۴﴾المدثر
مکہ میں نازل ہونے والی اول آیتوں میں سے ہے ۔
دھم: عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا ‘لید اور ہڈی سے استنجاء مت کرو ۔یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہے ۔ترمذی (1؍11) نسائی(1؍16) المشکوٰۃ(1؍42)
اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنے لیے اپنے جانورں کا سوال کیا ۔تو میں نے کہا ‘تمہارے لیے ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے زیادہ گوشت والی ہو جائے گی ۔اور ہر لید تمارے جانورں کا چارہ ہوگی ۔ نبیﷺ نے فرمایا :اس (ہڈی اورلید) کے ساتھ استنجاء مت کرو یہ تمارے جن بھا ئیوں کی خوراک ہے ۔اور یہ حدیث کئی لحاظ سے دلیل ہے ۔اول یہ کہ ہمیں مینگنی سے استنجاء سے منع فرمایا تا کہ اس کے ساتھ استنجاء کرکے ہو اسے جنوں کے لیے پلید نہ کردیں تو اگر وہ نجس ہوتی استنجاء کئے جانے کے بعد اور پہلے دونوں حالتوں میں پلید ہی ہوتی ۔
دوم :۔اگر گوبر اور مینگنی پلید ہوتی تو یہ مومن قوم کے جانورں کا چارہ نہ ہوتیں کیو نکہ اس کے کھانے کے بعد ان کے جانور جلالہ بن جاتے اور جلا لہ (گندگی خور ) کے کھانے سے نہی وارد ہے ۔
یاز دھم: اگر یہ چیزیں پلید ہوتیں تو رسول اللہ ﷺ ضرور بیان کرتے کیو نکہ انکا اکثر مال اونٹ اور بکر یاں ہی تھے ۔ انہی کے ساتھ انکا رہن سہن اور ان کے باڑوں میں ان کا آنا جانا ؤہتا ہے اور ان کے ساتھ ان کا ابتلا ء کتے کا ان کے برتن کوجھوٹا کرنے سے کم نہ تھا اگر ان کا پیشاب و مینگنی پلید ہوتے اور اس سے بدن اور کپڑا دھونا ضروری ہوتا اور ان کے عدم مخالطت ضروری ہوتی اور ان میں نماز منع ہوتی اور جس زمین پر یہ ہوتی اسے پاک کرنا نماز کے لیے ضروری ہوتا کیو نکہ سفر میں ان کے ساتھ اور ان کے باڑے میں نماز پڑھی جاتی ہے اور دودھ جس میں مینگنی گر جاتی ہے اس کا پینا حرام ہوتا اور ہاتھ کو اگر پیشاب یا مینگنی کی رطو بت لگ جاتی تو دھونے کی ضرورت ہوتی اور اس کے علا وہ نجاست کے دیگر احکام نبیﷺ ضرور بیان فرماتے تاکہ اس کا حکم معلوم ہوتا اور یہ سب کچھ یا بعض ہم تک نقل ہوتا کیونکہ شریعت اور لوگو ں کے لیے یہ کچھ کرنا واجب تھا جب ایسے کوئی نقل نہیں تو معلوم ہوا کہ اس کی نجاست نہیں بیان ہوئی اور عدم بیان اس کی طہارت کی دلیل ہے ۔
دوازدھم:صحابہ تابعین اور اکثر سلف کا بھی ان جانوٰں سے واسطہ رہا ہے ان سے دو چیزیں منقول ہیں۔
اول:یہ قول کہ ان کے پیشاب گوبر اور مینگنیاں پاک ہیں جیسے کہ عبد اللہ بن مغفل سے ورایت ہے نماز پڑھتے تھے اور ان کے قدموں پر لید کے اثرات ہوتے تھے اور ابو موسیٰ کی روایت پہلے گزر چکی ۔انس سے مروی بھی یہی ہے ۔
عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میری بکری میری جائے نماز میں مینگنیاں کر دیتی تھی ۔ابراھیم سے رویت ہے اس شخص کے بارے میں جو نماز پڑھ رہا ہو اور اسے لگی ہو تو کوئی حرج نہیں ابو جعفر الباقر ’ نافع مولیٰ ابن عمر دونوں سے روایت ہے کہ ان کی پگڑی کو اونٹ کا پیشاب وغیرہ لگ جاتا تو کہتے کوئی حرج نہیں ۔
دوم:پلید نہ ہونے کا حکم لگانا اور پھر اس کے دھونے کا حکم لگانا اور اس کے صرف دھونے کا حکم کرنا اس پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ نظافت امر مرغوب ہے اور طہارت اور نظافت میں فرق معلوم ہے۔
سیز دہم:گندم اور جو وغیرہ غلے کو کھانے کے لیے جانور پھر ائے جاتے تھے اور یہ معلوم ہے کہ جانور اس پیشاب اور گوبر کرتے تھے اگر یہ نجس ہوتے تو وہ گندم وغیرہ کھانا حرام ہوتی ۔امام طہاوی نے (1؍84) میں محمد بن علی ‘ابراہیم ‘عطاء حسن سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں ان جانورں کے پیشاب میں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے کوئی حرج نہیں۔سوائے حسن کے وہ اسے مکرو سمجھتے ہیں۔
٭اور ابن مسعود کی حدیث کہ وہ نبی ﷺ کے پاس دو پتھر اور ایک لید لایا تو آپ نے لید پھینک کر فرمایا کہ یہ نجس ہے(1؍72) تو اس کے مختلف وجوہ سے جوابات دیے گئے ہیں۔
پہلی وجہ:یہ کہیں انسانی خشک نجاست تھی یا قضیہ معین تھا یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کسی جانور کی لید تھی جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا اس لیے یہ جائز نہیں کہ قطعی طور پر یہ کہا جائے کہ یہ گوشت کھائے جانیوالے جامور کی لید تھی ۔اور ساتھ یہ بھی بات درست ہے کہ رکس کا لفظ نجاست پر دلالت نہیں کرتا ۔ کیونکہ رکس بھی مرکوس یعنی مردود ہے اور یہی رجیع کا معنیٰ ہوتا ہے ۔اور یہ معلوم ہے کہ استنجاء لید سے کسی صورت جائز نہیں یا تو نجاست کی وجہ سے یا اس وجہ سے یہ ہمارے جنات بھا ئیوں کے جانوروں کا چارہ ہے ۔پھر میں نے نیل الاوطار (1؍120) میں دیکھا حدیث میں ابن خزیمہ نے زیادہ لفظ بیان کیے ہیں ۔’’یہ گدھے کی لید تھی ‘‘اور نسائی نے کہا رکس جنوں کا طعام تھا ۔ اور اسی طرح وہ حدیث جس میں یہ لفظ وارد ہیں ’’پیشاب سے بچو‘‘یہ عام نہیں جو ہر پیشاب پر بولا جایے بلکہ اس پر جو الف لام داخل ہے وہ عہدی ہے اور وہی اصل ہے یعنی اپنے پیشاب سے بچو اور انسانوں کے پیشاب سے بچو کیو نکہ احادیث رسول ﷺ میں نہ تناقض ہوتا ہے اور نہ ہی تعارض۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ (21؍534۔587) میں مزید تفصیل اور اس مسئلے کے مخالفین کے جوبات دیکھے جا سکتے ہیں۔
چہار دہم: تمام المنہ (ص:52) میں بسند صحیح یحیٰ بن الجزار سے رویت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود نے نماز پڑھی اور ان کے پیٹ پر گو بر اور خون لگا ہوا تھا اس اونٹ کا جسے انہوں نے نحر کیا تھا اور وضوء نہیں کیا ۔
اور ایک اور روایت میں ہےپھر اقامت نماز ہوئی تو انہوں نے وضوء نہیں اور نماز نہیں پڑھی ۔ابن ابی شیبہ (1؍392) مصنف عبد الرزاق (1؍125) (رقم:459) طبرانی کبیر (9؍284)۔
پا نزدہم: بغوی نے جعدات (2؍887۔رقم:2503) میں ابو موسیٰ الاشعری سے رویت کیا ہے مجھے کوئی پر واہ نہیں کہ میں اونٹ کو نحر کروں اور میں اس کے گوبر وخون سے آلود ہو جاؤں اور پھر نماز پڑھوں اور پانی کو نہ لگاؤں۔ اس کی سند میں کلام ہے ۔ہم نے یہ دلائل آپ کے لیے ذکر کر دیے اس میں غور کریں تو مسئلہ اس سے بھی کم سے ثابت ہو جائے گا۔جبکہ اکثر متاخرین مسائل اپنے آراء اور قیاس جو آپس میں متعارض ہوتے ہیں ‘ثابت کرتے ہیں ۔۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب