سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) قرآن کریم میں محکم و متشابہ

  • 11845
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3946

سوال

(52) قرآن کریم میں محکم و متشابہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم میں محکم ومتشابہ سے کیا مراد ہے؟ سارے قرآن  کو محکم ہی کیوں نہیں  بنادیا گیا تاکہ لوگ حق کےسوا کوئی اور تاویل کر ہی نہ سکیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالی نے قرآن مجید  کے تین اوصاف  بیان  فرمائے ہیں‘ ایک تویہ کہ قرآن سارے کا  محکم ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الر‌ ۚ كِتـٰبٌ أُحكِمَت ءايـٰتُهُ ثُمَّ فُصِّلَت مِن لَدُن حَكيمٍ خَبيرٍ‌ ﴿١﴾... سورة هود

     ’’ الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے ‘‘

اللہ تعالی نے قرآن مجید کا دوسراوصف یہ بیان فرمایا ہے  کہ یہ متشابہ  ہے کہ جیسا کہ ارشاد باری تعالی  ہے:

﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا...﴿٢٣﴾... سورة الزمر

اس آیت میں تمام قرآن کےلیے ایک عام  حکم بیان کیاگیا ہے۔ تمام قرآن کےلیے حکم عام  کے معنی یہ ہیں کہ قرآن مجید  اپنے احکام  اور الفاظ وغیرہ کے اعتبار سے محکم اورمتقن ہے اور مشابہ  کے معنی یہ ہے کہ وہ کمال  عمدگی تصدیق اور ہم آہنگی کے اعتبار سے  ایک دوسرےسے ملتا جلتا ہے کہ قرآن مجید کے احکام واخبار میں تضاد اوراختلاف نہیں ہےبلکہ بعض مقامات سےبعض دیگر کے حق میں گواہی ملتی  اور تصدیق ہوتی ہے ۔  جن آیات  میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے انہیں سمجھنے کےلیے تدبر اور غورفکر کی ضرورت ہوتی ہے اسی وجہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے:

﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ﴿٨٢﴾... سورةالنساء

’’ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے ‘‘

قرآن نےاپناتیسر وصف بیان کیا  ہے کہ اس بعض  حصہ محکم اور بعض مشابہ ہے  جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتـٰبَ مِنهُ ءايـٰتٌ مُحكَمـٰتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتـٰبِ وَأُخَرُ‌ مُتَشـٰبِهـٰتٌ...﴿٧﴾... سورة آل عمران

’’ وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں ‘‘

محکم سے یہاں یہ مراد ہے کہ جس کے  معنی واضح اور ظاہر ہوں کیونکہ اس  کے بالمقابل جو الفاظ استعمال کیے  گیے ہیں وہ  ہیں﴿وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾ اور بعض مشابہ ہیں۔‘‘ اور الفاظ کی تفسیر اس کے  بالمقابل  لفظ سے معلوم ہوتی ہے اور یہ تفسیر کا ایک اہم قاعدہ ہے جو ہر مفسر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ لفظ کے معنی اس کے  بالمقابل استعمال  کیے گئے لفظ سے بھی واضح ہوتے ہیں  مثلا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا خُذوا حِذرَ‌كُم فَانفِر‌وا ثُباتٍ أَوِ انفِر‌وا جَميعًا ﴿٧١﴾... سورة النساء

’’ اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروه گروه بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو ‘‘

اس آیت میں ’’ ثُبَاتٍ‘‘ کالفظ مشکل تھا لیکن جب ہم  اس کے بالمقابل استعمال کیے گئے لفظ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ثُبَاتٍ‘‘ کےمعنی الگ الگ کےہیں کیونکہ اس  کےمقابل  استعمال کیے گئے لفظ ’’ جَمِيعًا‘‘ کےمعنی اکٹھے کےہیں۔ اس طرح ہم مذکورہ بالاآیت کے بارے میں کہیں گے  کہ اس  میں محکم  کے معنی واضح اور غیر مشبہ کے ہیں کہ انہیں  عام وخاص سب لوگ جانتے ہیں جیساکہ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾ ’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو‘‘ اس طرح دیگر امور ہیں  جن معنی بالکل واضح ہیں۔

قرآن مجید کی بعض آیات  متشابہ ہیں۔ متشابہ ان آیات کو کہتے ہیں کہ جن معنی  بہت سےلوگوں سے مخفی ہوں کہ ان  کےمعنیٰ اللہ تعالیٰ  اور علم میں  دستگار کامل رکھنے والوں کے سوا اور نہیں جانتا جیساکہ  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتـٰبَ مِنهُ ءايـٰتٌ مُحكَمـٰتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتـٰبِ وَأُخَرُ‌ مُتَشـٰبِهـٰتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـٰبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ ۗ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرّ‌ٰ‌سِخونَ فِى العِلمِ يَقولونَ ءامَنّا بِهِ كُلٌّ مِن عِندِ رَ‌بِّنا ۗ وَما يَذَّكَّرُ‌ إِلّا أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٧﴾... سورةآل عمران

’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ‘‘

یہ معنی قراءت  وصل کےمطابق ہیں ۔یادرہے کہ اس  آیت کی قراءت میں سلف کے دو معروف قول ہیں ۔ ایک یعہ کہ (الا اللہ) پر وقف کیاجائے اور دوسرا یہ کہ یہاں وقف نہ کیا جائے بلکہ وصل کیا جائے۔ بہرحال  ان میں سے ہر قراءت مبنی بر دلیل ہے۔

سائل نےجو یہ پوچھا ہے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سارے  قرآن کو محکم کیوں نہیں بنادیا  اس  میں  سےبعض  کو متشابہ کیوں بنایا ہے؟ تو اس کا جواب دو طرح سے ہے:

اولا: معنی عام کے  اعتبار سے تو سارا قرآن ہی محکم ہے جیساکہ ہم نے شروع میں عرض کیا تھا  متشابہ کو ہم محکم کی طرف لوٹا دیں گے تو اس کے معنی بھی واضح  اور روشن ہوجاتے ہیں اور اس طرح سارا قرآن ہی محکم ہوجاتا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےقرآن  قرآن مجید کے ان مقامات کو جومتشابہ ہیں جن  پر غور فکر اورتدبر کرناپڑتا ہے اور انہیں محکم کی طرف لوٹانا  پڑتا ہے انہیں ایک حکمت کی وجہ  سےنازل کیا ہے ۔ حکمت یہ ہے کہ ان میں ابتلاء امتحان اورآزمائش کاسبب ہیں  اسی طرح آیات  کونیہ  وقدریہ بھی لوگوں کےلیے امتحان وآزمائش کا ذریعہ  بنتی ہیں کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ شریعت پر عمل کے سلسلہ میں بعض اشیاء کو امتحان وآزمائش کا ذریعہ کے مقرر کردیتا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالی ٰ نے ان لوگوں کی کس طرح آزمائش کی  جن کے لیے ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دے دیا تھا اس میں

ان کےلیے بڑی آزمائش تھی کہ ہفتہ کےدن سطح آب پر مچھلیاں بڑی کثرت سے نمودار ہوتی تھیں کہ دوسرے دنوں میں  اس کثرت سے نظر نہیں آتی تھیں لیکن وہ لوگ اس آزمائش پر صبر نہ کرسکےانہوں نے مشہور ومعروف حیلہ سے کام لیا کہ جمعہ کے دن  اپنے جال  پانی میں ڈال دیتے تھے تاکہ اس میں مچھلیاں پھنس جائیں اور  ان مچھلیوں کو وہ اتو ار کے دن پکڑ لیتے تھے۔ اس حیلہ سازی  پر اللہ تعالیٰ نے انہیں  دنیا ہی  میں سخت سزا دی ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی آزمائش کی اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لَيَبلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَىءٍ مِنَ الصَّيدِ تَنالُهُ أَيديكُم وَرِ‌ماحُكُم لِيَعلَمَ اللَّهُ مَن يَخافُهُ بِالغَيبِ...﴿٩٤﴾... سورةالمائدة

’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ معلوم کرلے کہ کون شخص اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے ‘‘

اللہ تعالیٰ نےشکار تک ان کے ہاتھوں کے سہولت سے پہنچنے سے انہیں  حالت احرام میں آزمایا تو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نےصبر کامظاہرہ کیا  اور کسی بھی  ایسے کام ارتکاب نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نےان کے لیے حرام قرار دیاتھا اسی طرح شرعی آیات میں بھی کچھ متشابہ اشیا ہوتی ہیں جن  میں بظاہر تعارض اور تضاد ہوتا ہے لیکن  راسخ فی العلم  لوگ جانتے ہیں کہ ان میں کس طرح تطبیق دیں جب کہ اہل فتنہ وشران آیات سےیہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں تعارض وتناقض ہے۔ ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

﴿ فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـٰبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ ۗ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ...﴿٧﴾... سورةآل عمران

’’  پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص52

محدث فتویٰ

تبصرے