سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) بعض اوقات پیشاب کھڑے ہو کر بھی کرنا جائز ہے

  • 11843
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2623

سوال

(134) بعض اوقات پیشاب کھڑے ہو کر بھی کرنا جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے ؟بعض لوگوں کا یہ خیال ہے یہ کافروں کا فعل ہے کیا یہ صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث سے ثابت ہے حذیفہ ﷜ ورایت کوتے ہیں میں رسول اللہﷺ کے ساتھ آپ قوم کے کوڑا کرکٹ پھینکنے والے پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا ارادہ کیا  میں آپ سے دور ہٹ گیا تو فرمایا قریب آ۔ میں قریب ہو کر آپ کے قد موں کے پاس کھڑا ہو گیا (فارغ ہو کر) آ پ ﷺ نے وضو ء کیا اور موزوں پر مسح کیا۔

بخاری (1؍36)مسلم (1؍132) ابوداؤد(1؍4) احمد(4؍246۔5؍283۔394)

امام مالک ﷫ بھی عبداللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر ﷜ کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے  ہوئے  دیکھا اس کی سند صحیح ہے

مئوطا (1؍50) بخاری مسلم نے رویت کیا ہے ۔جیسے المشکوٰۃ (1؍52) میں ہے انس ﷜ رویت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد میں تھے اتنے میں ایک  اعرابی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے  سے نہیں روکا اگر ایسا ہوتا تو یہ  جگہ بیان کی تھی ۔امام نووی﷫ نے شرح صحیح مسلم (1؍133) میں کہا ہے کہ منذر ﷫ ‘‘الاشراف’’ میں کہتے ہیں : ‘‘علماء نے کھڑے ہو کر  پیشاب کرنے کے  بارے میں  اختلاف کیا ہے’عمربن خطاب’زید بن ثابت ’ابن عمر’ سہیل بن سعد﷢ ان سب نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۔انس ’ علی اور ابوہریرہ ﷢ سے بھی مروی ہے ابن سیریں اور عروہ بن زبیر ﷜ نے بھی اسی طرح کیا ۔جبکہ ابن مسعود﷜ شعبی﷫ اور ابراہیم بن سعد﷫ اسے مکروہ سمجھتے ہیں ابراہیم بن سعد  تو کھڑا ہو کر پیشاب  کرنے  والے کی گواہی جائز نہیں سمجھتے ۔

یہاں تیسرا قول یہ ہے کہ اگر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے چھینٹے نہ پڑتے ہو ں تو کوئی حرج نہیں ۔ یہ قول امام مالک کا ہے ۔ ابن منذر ﷫ کہتے ہیں  بیٹھ کر پیشاب کرنا زیادہ محبوب ہے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مباح ہے اور  دونوں رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں۔شیخ البانی ارواء الغلیل (1؍95) (رقم:57) میں خذیفہ ﷜ کی حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:‘‘فائدہ:مئولف نے  اس حدیث سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی عدم کراہت پر استدلال کیا ہے اور یہ حق ہے کیونکہ نہی میں کوئی چیز ثابت نہیں ۔جیسے حافظ ابن حجر ﷫ نے کہا ہے  مقصود چھینٹوں سے بچنا ہے ’کھڑے ہو نے ’ بیٹھنے میں جس سے  بھی یہ مقصد حاصل ہو وہی واجب ہے ’اس قائدے کی رو سے کہ وہ امر جس کے  ساتھ واجب قائم ہوتا ہو وہ واجب ہے۔

تنبیہ:عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف نہیں کہ وہ فر ماتی ہیں کہ  جو بھی تمہیں یہ کہے کہ آپ ﷺ کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اس کی تصدیق مت کرو کیو نکہ آپ ﷺ نے جب بھی پیشاب کیا بیٹھ کر کیا ہے ’ نسائی ’ترمذی’ ابن ماجہ’ ابو  عوانہ’ حاکم ’ بیہقی ’ احمد اور اسکی سند موافق شرط مسلم صحیح ہے   جیسے کہ الصحیحہ (345؍1) (رقم:20)میں ہے ۔

میں کہتا ہوں :کہ ہر کوئی وہی بتا رہا ہے جو وہ جانتا ہے ۔ تو جو جانتا ہے  اس کی بات حجت ہے اس پر جو نہیں جانتا ۔اورجو حذیفہ ﷜ کی حدیث میں تاویل کوتا ہے کہ آپﷺ نے اس لئے کھڑے ہو کر پیشاب کیا کہ آپﷺ کے گھٹنے کے جوڑ میں زخم تھا ۔جیسے کہ الخطابی نے معالم السنن (1؍29)   حاکم نے (1؍182) بیہقی نے (1؍101) میں روایت کیا ہے ۔تو یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والا حماد بن غسان اکیلا ہے اور وہ ضعیف ہے۔

اور وہ حدیث جسے امام ترمذی نے (1؍9) میں ابن مسعود ﷜ سے معلق روایت کیا ہے وہ کہتے  ہیں کہ کھڑے  ہو کر پیشاب کرنا بری عادت ہے ’  یہ حدیث  ابن مسعود﷜ سے موقوف صحیح  ہے اور مرفوع نہیں۔

جیسے بیہقی نے (285؍2) میں ’ابن ابی شیبہ نے (1؍124) میں۔امام بخاری ﷫ نے التاریخ الکبیر (2؍454) میں اور طبرانی نے اوسط میں کیا ہے اس کے لفظ یہ ہیں :‘‘چار کام کرنا بری عادت ہے ۔  آدمی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا آدمی کا نماز پڑھنا اور لوگ آگے سے گزر رہے ہوں ’اورسترہ نہ ہو’آدمی نماز میں ہو اور ماتھے پر لگی مٹی  کو صاف  کرنا اور مئوذن کی اذان سنے اوراس کا جواب نہ  دے اس کا پہلے ذکر شدہ احادیث کے ساتھ کوئی تعارض نہیں کیونکہ اس میں اسے ‘‘الجفاء’’ کہا ہے حرام نہیں کہا ۔اس کے علاوہ یہ  اس  کا قول ہے اور مخالفت کی صورت میں حجت نہیں ہے ۔تفصیل کے لیے مراجعہ کریں الارواء ۔اور جو حدیث ابن ماجہ نے  (1؍112) ترمذی(1؍9) روایت کی ہے۔اور  اسی طرح مشکوٰۃ (1؍43) میں ہے  عمر بن خطاب﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کھڑے کھڑے پیشاب کرتے دیکھا  تو فر مایا ’ اے عمر  کھڑے ہو کرنہ کیا کریں۔ تو اس کے بعد میں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔یہ حدیث ضعیف ہے  کیونکہ اسکی سند میں عبد الکریم ابن ابی المخارق محد ثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔

جیسے کہ امام ترمذی وغیرہ نے کہا ہے ثابت ہوا کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے کیونکہ حدیث حذیفہ ﷜ مثبت (ثابت کر نے  والا) ہے اور عائشہ   رضی اللہ عنہا کی حدیث نفی کر رہی  ہے اور مثبت (ثابت کر نے  والا)  نفی کرنے والے پر مقدم ہے  کیونکہ اس کے پاس  زیا دہ علم ہے تو دونوں  کام جائز ہیں۔پیشاب  کی چھینٹو ں سے بچنا فرض ہے ۔جس صورت میں یہ واجب حاصل ہو جائے کر لینا چاہیے اس کے بعد بھی اگر کوئی کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو مکروہ سمجھے تو اس کا قول نا قابل التفات ہے  جیسے کہ امام شوکانی نے السیل الجرار(1؍16)  میں اسے مکروہ کہا ہے۔

٭ اسی لیے صاحب السنن والمبتد نے (ص:20۔91) میں احادیث ذکر کرنے  کے بعد کہا ہے ۔‘‘فصل: اکثر لوگوں کا کھڑے ہو کر پیشاب کرنے  والے پر انکار  نا سمجھی اور جہالت ہے۔کبھی کہتے ہیں: یہودیوں کی طرح پیشاب کرتا ہے ۔ کبھی کہتے ہیں پاؤں اٹھا کر کتے کی طرح پیشاب کرتا ہے۔اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے  اور اس کی تنصیص کرتے   ہیں باوجود اس کے کہ وہ حق پر ہے ۔اور یہ باطل پر ہیں’وہ سنت پر ہے اور یہ بدعت جہالت پر ہیں۔ہاں پیشاب کرنے والے پر لوگوں سے ستر عورت کرنا چاہیے اور پیشاب کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ وہ نرم ہو اور اسے  چھینٹے نہ پڑیں’قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھے اور ہوا کی طرف  رخ کر کے نہ بیٹھے۔اگر وہ اسی طرح کرتا ہے اور لو گوں کو سمجھا بھی دیا ہے پھر بھی انکار پر مصر ہوں تو پر واہ نہ کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص304

محدث فتویٰ

تبصرے