السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اندرون اور بیرون ملک یہ دیکھا گیا ہے کہ مدارس کے طلبہ پیشاب کرنے کے بعد وضو کیے بغیر قرآن مجید کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ مدارس میں یہعادت عام ہے حالانکہ ارشاد باری تعالی:
﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ ﴿٧٩﴾... سورة الواقعة
’’جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں‘‘
رسول اللہﷺ بھی فرمایا ہے:
«لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرًا»(موارد الظمان الی زوائد ابن حبان ح:793وسنن الدارقطنی ح:433)
’’انسان قرآن مجید کو اس وقت ہی ہاتھ لگائے جب وہ پاک ہو۔‘‘
تو سوال یہ کہ قرآن مجید کو باوضو ہاتھ لگانے میں کیا حکمت ہے اور کیا جو شخص بے وضو ہاتھ لگائے گا وہ گناہ گار ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امور طلبہ کے ذمہ دار حضرات کوچاہیے کہ وہ انہیں ہر اس چیز کی عمل ی تعلیم دیں جو ہر عبادت کےلیے واجب ہے انہیں عبادات میں سےدیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت بھی ہےکہ یہ طہارت کاملہ پر موقوف ہے۔ اس طرح قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مدرسین پر واجب ہے کہ وہ ہر سبق کےآغاز میں طلبہ کی رہنمائی فرمائیں اور جو بےوضو ہو اس سے وضو کرائیں۔ الحمداللہ! اب ہر مدرسےمیں دن رات ہر وقت پانی وافر مقدار میں موجود ہے اور مدرسہ میں داخل ہونےوالا ہر بچہ شروع ہی سے وضو کرنے کا طریقہ جانتا ہے اور سائل نےجو دلائل خود ہی ذکر کیے ہیں وہ اس بارے میں کافی ہیں کہ قرآن مجید جو کہ پاک کلام اللہ رب العالمین کر طرف سےنازل شدہ ہے‘ کو ہاتھ لگانے کےلیے طہارت لازم ہے کیونکہ للہ تعالی نے اس کے بارےمیں خود ہی فرمایا ہے کہ اس کو وہی مراد وہ لوگ ہیں جو کفر شرک اور حدث اکبر واصغر سے پاک ہوں کیونکہ عموم دلائل کایہی تقاضا ہے اور اگر ’کتاب مکنون‘ سےمراد وہ کتاب ہے کہ جس کےقریب صرف فرشتے ہی جاتےہیں تو قرآن بھی اسی کی فرع ہے لہذا اسےبھی وہائے ہاتھ لگائے جو باطنی اور ظاہری طور پر دونوں طرح پاک ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب