السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے استنجاء کرنا جائز نہیں؟:یار محمد۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہڈی ‘لید ‘گوبر ‘کوئلہ اور کھانے کی چیز سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
صحیح حدیث میں ثابت ہے عبداللہ بن مسعودسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ‘لید اور ہڈی سے استنجاء مت کرو کیونکہ یہ تمہارے جنات بھائیوں کی خوراک ہے‘‘ترمذي(1\11)نسائي(1\16)المشكاة(1\42)-
ابو ہریرہ سے روایت وہ کہتے ہیں کہ روسول اللہﷺ نے فرمایا ’میں تمہارے لیے بچے کے باپ کی طرح ہوں جب تم قضائے حا جت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف نہ منہ کرو اور نہ پیٹھ پھیرو ۔ (استنجاء کرنے کے لیے) تین پتھروں کا اور لید و ہڈی سے منع فرمایا ۔ اور داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے بھی منع فرمایا "ابن ماجہ(1\114) ’دارمی (1\138) مشكوٰة(1\42)-
رویفع بن ثابت کی ترفوع حدیث میں نے’’یا جانورو کی لید وگوبر سے استنجاء کیا تو محمد ﷺاس سے بیزار ہیں’’ابوداؤد(1\6) مشكوٰة(1\43)
اور امام ابوداؤد وابن مسعود کی رویت لائے ہیں ’’کہ جنوں کا وفد کے پاس آیا تو انہوں نے آپ سے کہا ’اپنی امت کو لید’ہڈی اور کو ئلے سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس میں ہماری ورزی رکھی ہے تو رسول اللہﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔اور کپڑا قابل احترام ہے اس سے بھی استنجاء کرنا جائز نہیں یہ مال کا ضیاع ہے اور اضاعت مال سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔
اور جب جنوں کے طعام کے ساتھ استنجاء کرنا حرام ہے تو انسانوں کے کھانے کے ساتھ بطریق اولیٰ حرام ہے ۔اور ٹشو پیپر جو اس مقصد کے لیے تیار کیے گئے ہیں استنجاء کرنا جائز ہے۔ البتہ نفع بخش کا غذات کے ساتھ جائز نہیں اس سے اضاعت مال ہے۔ اورچونکہ کاغذوں پر قرآن وسنت اور علوم نافعہ لکھے جاتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ استنجا ء کرنا سوء ادب ہے۔
اور شمس الا ئمہ لکھائی سے خالی ورق کا بھی احترم کرتے تھے ۔
استنجاء پتھر اور ڈھیلے کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور پانی کے ساتھ بھی ہے۔پانی ہی کے ساتھ استنجاء کرنا کوئی واجب نہیں جیسے کہ عام لوگوں کا خیال ہے ’بعض نا سمجھ لوگوں کے سامنے استنجاء بالماء کرنے کا تکلف کرتے جبکہ وہ پتھر سے استنجاء کرچکے ہوتے ہیں جس کا سبب قرآن و سنت سے نا واقفی ہے۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ڈھیلوں اور پانی دونوں سے استنجاء کرنا کیسا ہے؟
تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوں کا جمع کرنا مستحب نہیں اور دین میں غلو ہے۔کیونکہ نبیﷺ اور صحابہ پتھروں پر ہی کفا یت کرتے تھے ۔یا پھر صرف پانی سے استنجاء کرتے تھے۔اور وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ اہل قباء پتھروں اور دونوں کا استعمال کرتے تھے۔یا پھر صرف پانی سے استنجاء کرتے تھے۔اور وہ حدیث جس میں اہل قباء پتھروں اور پانی دونوں کا استعمال کرتے تھے ’تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی {فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ } [التوبة: 108]تو وہ ضعیف الاسناد ہے اور نا قابل احتجاج ہے ۔امام نووی اور حافظ ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام ابن کثیر نے سورۃ توبہ (2؍390) کی تفسیر میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
اصل حدیث ابوداؤد وغیرہ میں بروایت ابو ہریرہ ہے اور وہ پتھروں کے ذکر کے بغیر ہے۔ اسی لیے امام ابوداؤد نے اسے باب الاستنجاء بالماء میں وارد کیا ہے (1۔7)(رقم44) اس کے شوہد بکثرت ہیں جن میں ذکر پتھروں کا ذکر نہیں’صحیح حدیث کے لفظ یہ ہیں ‘‘ابوہریرہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا’یہ آیت ‘‘اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں ’’(التوبۃ:108)۔کہتے ہیں کہ وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے اس لیے یہ آیت ان کے بارے میں اتری ۔
میں کہتا ہوں:عربوں کی یہ عادت تھی وہ صرف پتھروں پر اکتفاء کرتے تھے اور قبا ء والے صحابہ صرف پانی سے استنجاء کرتے تھے تو اللہ نے ان کی مدح فرمائی ۔اوروہ حدیث علی بن ابی طالب جو امام بیہقی(106۔1)میں بسند عبد المالک بن عمر لائے ہیں کہ علی بن ابی طالب نے فرمایا’ان کا پاخانہ بمشکل مینگنی کے ہوا کرتا تھا۔اور بمثل گوبر کے اس لیے تم پتھروں کۃ بعد پانی استعمال کرو یہ موقوف ہونے کے ساتھ غیر صحیح ہے۔عبدالمالک بن عمر اور علی کے درمیان انقطاع ہے ’علی سے براہ راست روایت نہیں کرتا ’اور مدلس بھی ہے سماعت کی تصریح بھی نہیں کی امام بیہقی نے ‘ باب الجمع فی الاستنجاء بین المسح بالاحجار والغسل بالماء‘‘
میں متعدد احادیث ذکر کی ہیں’لیکن اس سے کسی بھی روایت میں پتھروں کا ذکر نہیں سوائے علی کی حدیث کے اور جیسے معلوم ہوا ضعیف ہے۔مراجعہ کریں الجوہرالسقی (105؍1) تمام المنئہ(ص:65)
تو مسلمان کے لیے فعل رسول ﷺ سے رو گردانی مناسب نہیں لیکن یہاں کچھ حدیثیں ہیں جس سے علماء استدلال کرتے ہیں کہ نبیﷺ پتھروں سے استنجاء کرتے پھر پانی سے۔جیسے امام ابوداؤد نے (برقم:45) ابوہریرہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ قضاء حاجت کے لیے جاتے تو میں آپ کے لیے برتن ’لوٹے میں پانی لاتا آپ استنجاء کرتے ’ابوداؤد کہتے ہیں وکیع کی حدیث میں ہے پھر آپ اپنا ہاتھ زمین پر ملتے پھر میں دوسرا برتن پانی کا لاتا تو آپ وضو کرتے ۔
اورصحیحن نے انس سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور میرے ساتھ میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ اٹھا لاتے تو آپ پانی سے استنجاء کرتے۔
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ قضاء حاجت کی جگہ آکر پانی سے استنجاء کرتے اس لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے پتھر ڈھیلے سے صفائی کر چکے ہوتے یا پھر ابو ہریرہ اور انس بن مالک پانی لے کر قضائے حاجت والی جگہ میں داخل ہوتے جو ممکن نہیں کیونکہ نبیﷺ کا کثیر الحیاء ہونا ثابت ہے اور سخت پردہ کیا کرتے تھے۔٭میں کہتا ہوں:پتھر اور پانی کو جمع کرنے پر یہ استدلال بعید ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب