سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) پگڑی سے متعلق احادیث کی تخریج وتحقیق

  • 11804
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 10662

سوال

(125) پگڑی سے متعلق احادیث کی تخریج وتحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بغیر پگڑی کے نماز کی کراہیۃ کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے ؟ سنت مطہرہ میں اس کی مقدار کتنی ہے ، نماز اور خارج نماز اس کا کیا حکم ؟ اخوکم عزیز اللہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے ہم لفظ حدیث مع نقد سند ذکر کریں گے پھر ان سے ہم عمامہ (پگڑی) سے متعلق مسائل کا استنباط کریں گے تاکہ جو لوگ اس کے بارے میں تعصب و تشدد کا شکار ہیں یا جو تساھل برتتے ہیں سب کے شکوک و شبہات دور ہوں۔

اللہ کے حکم اور اس کی توفیق سے۔

پہلی حدیث: جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ فتح کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر سیاہ پگڑی تھی (مسلم (1/439)) صحیح مسلم کی دوسری روایت عمروبن حریث سے مروی ہے وہ کہتے ہیں گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھ رہا ہوں آپ سیاہ پگڑی پہنے ہوئے تھے اور اس کے دونوں کنارے کندھوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے۔

دوسری حدیث: ابن عمرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب پگڑی باندھتے تو اسے کندھوں کے  درمیان لٹکاتے۔ الترمذي (1/204) الخطيب  (11/293)اس کی سند سمیت تمام طرق کے صحیح ہے ،  الصحيحة (2/343) رقم (717)۔

تیسری حدیث: عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ جبریل علیہ السلام عمدہ گھوڑے پر سوار نبیﷺ کے پاس آئے انہوں نے پگڑی باندھ رکھی تھی  اور اس کا کنارہ دونوں  کندھوں کے درمیان تھا۔ انہوں نے نبیﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا ،  آپ نے اسے دیکھا وہ جبریل علیہ السلام تھے۔ أحمد (6/148،152) حاكم (4/193-194)  امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی  نے بھی ان کی موافقت کی لیکن اس کی سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف ہے۔

چوتھی حدیث: ابو عبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : میں نے اور عطاء نے دیکھا کہ یزید اللیثیؓ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے اور اس کا کنارہ پیچھے لٹکائے ہوئے تھے اور داڑھی کو زرد رنگ دئے ہوئے تھے ، میں ان کے سامنے سے گزرنے لگا تو انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا۔ (الحدیث) أحمد (2/82) یہ حدیث موقوف على التابعي ہے۔

پانچویں حدیث: عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے پگڑی باندھی اور اس کے کنارے میرے آگے اور پیچھے لٹکائے۔ نکالا اسے أبوداود (2/209) نے اور اس کی سند ضعیف ہے سلیمان بن خبوذ مجہول ہے۔ مشکوۃ (2/374) رقم (4339)۔

چھٹی حدیث: رکانہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ فرماتے تھے ہمارے اور مشرکوں کے درمیان  فرق ٹوپی پر پگڑی باندھنا ہے۔ أبو داود (2/209 )، ترمذي (1/308) مشكاة (2/374) اس کی سند ضعیف ہے اس میں ابو الحسن العسقلانی راوی مجہول ہے لیکن اس حدیث میں المصارعہ کا ذکر ہے اور یہ صحیح سند کے ساتھ وارد ہے جیسے الارواء (5/329) رقم (1503) اور ضعیف الجامع رقم (3959) میں ہے۔

ساتویں حدیث: حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں لوگ عمامہ اور ٹوپی پر سجدہ کرتے تھے اور ان کے ہاتھ آستینوں میں ہوا کرتے تھے۔ امام بخاریؒ نے ترجمہۃ الباب (۱/۵۶)  میں ذکر کیا ہے نکالا ہے اسے ابن ابی شیبہ نے۔

آٹھویں حدیث : ابن عمرؓ سے مرفوعا روایت ہے پگڑی کے ساتھ فرض یا نفل نماز پگڑی کے پچیس نمازوں کے برابر ہے، پگڑی کے ساتھ جمعہ بغیر پگڑی کے ستر جمعوں کے برابر ہے ۔نکالا اسے ابن النجار ، الدیلمی اور ابن عساکر نے ضعیف الجامع رقم (352) حدیث موضوع ہے ، السلسلة الضعيفة (1/158) رقم (127) کیونکہ اس کی سند میں چار راوی مجہول ہیں : عباس ، ابو بشر، محمد بن مہدی اور مہدی بن میمون۔

نویں حدیث: پگڑی کے ساتھ دو رکعتیں بغیر پگڑی کے ستر رکعتوں سے بہتر ہیں ۔ الضعيفة (1/160) یہ موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن نعیم کذاب اور ایک مجہول راوی ہے۔

دسویں حدیث : پگڑی کے ساتھ نمازدس ہزار نیکیوں کے برابر ہے ۔ موضوع ہے ، تنزيه الشريعة (2/257) المقاصد الحسنة (124) موضوعات علي القاري (ص: 15) الضعيفة (1/161) رقم (129) اور اس کی سند میں ابان راوی متہم ہے۔

گیارویں حدیث: ابن عباسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : پگڑی باندھو تحمل بڑھے گا ۔ حاکم (4/193) ، بزار ، طبرانی اس میں عبید اللہ بن ابی حمید ہے اور وہ متروک ہے طبرانی کی سند میں عمران بن تمام ضعیف ہے مجمع الزوائد (5/119) بہت ضعیف ہے ، ضعیف الجامع (ص: 132)۔

باروھیں حدیث: اسامہؓ سے روایت ہے  وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے : پگڑی باندھو تحمل بڑھے گا (طبراني) اس میں عبید اللہ راوی متروک ہے دیکھو كنز العمال (6/701)۔

تیرویں حدیث: عائشہؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں رسول اللہﷺ نے عبد الرحمن بن عوفؓ کو پگڑی باندھی اور سے بقدر چار انگلی لٹکایا اور فرمایا جب میں آسمان پر گیا تھا تو میں نے اکثر فرشتوں کو پگڑی باندھے دیکھا، طبرانی فی الاوسط اس میں مقدام بن داود ضعیف ہے۔

چودھویں حدیث: رسول اللہﷺ کے غلام ثوبان روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب پگڑی باندھتے تو آگے اور پیچھے لٹکاتے (طبرانی) اس میں حجاج بن رشدین ضعیف ہے۔

پندرھویں حدیث: ابن عمرؓ سے روایت ہے میں مسجد رسول اللہ ﷺ میں موجود دس افراد میں سے دسواں تھا ابو بکر، عثمان، ابن مسعود ، ابن جبل ، حذیفہ ، ابن عوف ، میں اور ابو سعید تو ایک جماعت کے ساتھ  جانے کے لیے تیار ہو کر آئے جس کا امیر بنا کر آپﷺ نے اسے بھیجا تھا تو وہ صبح کالی کھردرے کپڑے والی پگڑی باندھ کر آئے تو نبیﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اسے کھو کر دوبارہ باندھ دیا اور پیچھے بقدر چار انگلی کے یا اس کے قریب قریب لٹکایا پھر فرمایا اس طرح پگڑی باندھا کرو اے ابن عوف ! یہ زیادہ واضح اور اچھی ہے۔ لمبی حدیث ذکر کی ہے (طبراني في الأوسط) اور اس کی سند حسن ہے اسی طرح ھیثمی نے کہا۔

سولھویں حدیث:  ابو عبد السلام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں ابن عمرؓ کو کہا "رسول اللہﷺ کس طرح پگڑی باندھا کرتے تھے تو انہوں نے کہا پگڑی اپنے سر مبارک پر لپیٹتے اور پیچھے کھرس کر اس کے کنارے کندھوں کے درمیان لٹکا دیتے تھے۔ روایت کیا اسے طبرانی نے اوسط میں اور اس کے تمام راوی صحیح کے ہیں سوائے ابو عبد السلام کے اور وہ ثقہ ہے ۔ مراجعہ کریں الصحيحة (2/345)"۔

سترھویں حدیث: ابو موسیؓ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبیﷺکے پاس اترے انہوں نے کالی پگڑی پہن رکھی تھی اور اس کے دونوں طرف پیچھے لٹکائے ہوئے تھے۔ اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس میں عبید اللہ بن تمام راسی ضعیف ہے۔

اٹھارویں حدیث: ابن عمرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، پگڑی کا التزام کرو یہ فرشتوں کی علامت ہے اور اس کے (کناروں) کو پیچھے کی طرف لٹکاو۔ اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس میں عیسی بن یونس راوی مجہول ہے امام ذہبیؒ نے المیزان (4/396) میں ذکر کیا ہے ۔ اور حدیث منکر ہے جیسے کہ الضعيفة (2/119) رقم (699) اور طبرانی (کبیر) (3/201) میں ہے ، المقاصد الحسنة میں ہے بعض بعض سے زیادہ کمزور ہیں۔

انیسویں حدیث: ابو امامہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کسی شخص کو پگڑی باندھے بغیر  والی نہیں بناتے تھے اور اس کے کنارے کان کی جانب لٹکاتے تھے۔ اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس میں جمیع بن ثقت نام کا راوی متروک ہے۔ مراجعہ کریں مجمع الزوائد (5/120 – 121 )۔

بیسویں حدیث : ابو درداء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالی اور اس کے فرشتے پگڑی والوں پر جمعہ کے دن بھیجتے ہیں ۔ طبرانی نے اسے الکبیر میں روایت کیا اور اس میں ایوب بن مدرک کذاب ہے جیسے کہ المجمع (2/126) میں ہے ۔  حدیث موضوع اور باطل ہے السلسلة الضعيفة (1/188) رقم (159)۔

اکیسویں حدیث: معاذؓ سے مرفوعا روایت ہے ؛ احتباء (تہبند باندھنا) عربوں کی حفاظت ہے ، تکیہ لگانا عربوں کی رھبانیت ہے اور پگڑی باندھنا عربوں کا تاج ہے تو تم پگڑی باندھا کرو تمہارا حلم بڑھے گا۔ اور جو پگڑی باندھتا ہے اس کیلئے پگڑی کے بل کو عوض ایک نیکی ہے اور جب وہ پگڑی کھولتا ہے تو ہر بل کے کھلنے پر اس کا ایک گناہ ختم ہو جاتا ہے ۔ کنز العمال (15/358) رقم (41146) هيثمي نے أحكام اللباس (2/9) میں ذکر کیا ہے الضعيفة (2/152) رقم (718) ۔ حدیث موضوع ہے اس میں تین کذاب ہیں۔

بائیسویں حدیث: خالد بن معدان سے مرسل روایت ہے پگڑی باندھو اور پہلی امتوں کی مخالفت کرو۔

روایت کیا اسے بیہقی نے شعب الایمان میں کنز العمال میں (15/302) رقم (1137) میں ذکر کیا ہے اور حدیث بہت ضعیف ہے جیسے کہ ضعیف جامع (ص: ۱۳۳) میں ہے۔

تئیسویں حدیث: علیؓ سے مرفوعا روایت ہے مساجد میں پگڑی کے ساتھ یا بغیر پگڑی کے آو ، پگڑیاں مسلمانوں کا تاج ہیں۔ اسے ابن عباس ، عدی نے روایت کیا اور اس میں میسرۃ بن عبید راسی متروک ہے جیسے کہ المناوی نے فیض القدیر  (1/67) میں کہا ہے ، حدیث موضوع ہے الضعيفة (3/459) رقم (1296)۔

چوبیسویں حدیث: ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق پگڑی کا ٹوپی پر باندھنا ہے ، سر پر پگڑی کا ہر بل گھمانے پر نور  دیا جائیگا۔ اسے بارودی نے روایت کیا ہے جیسے کہ کنز العمال (15/305 ) میں رکانہ سے مروی ہے اور حدیث باطل ہے جیسے السلسلة الضعيفة (3/362) رقم (1217) میں ہے ، دیکھیں ضعیف جامع (ص: 567) رقم (389)۔

پچیسویں حدیث: ابن عباسؓ سے مرفوعا مروی ہے "پگڑیاں عربوں کا تاج ہیں اور تہبند جب یہ پگڑی اتاردیں گے تو عزت بھی اتار پھینکیں گے ۔" اسے دیلمی نے مسند الفردوس میں نکالا ہے ، کنز العمال (15/305) رقم (41133) اور حدیث ضعیف ہے الضعيفة (3/96) رقم (1593) ضعیف الجامع رقم (3891)۔

چھبیسویں حدیث : علیؓ سے مرفوعا روایت ہے : "پگڑیاں عربوں کا تاج اور تہبند کی حفاظت ہے اور مومن کا مسجد میں بیٹھنا رباط ہے۔" منکر ہے دیکھیں الضعيفة (4/96) رقم (1593) ضعيف الجامع (ص: 567) رقم (3592)۔

ستائیسویں حدیث: عمران بن حسینؓ سے مرفوعا روایت ہے : پگڑی مومن کا وقار اور عرب کی عزت ہے جب عرب پگڑیاں چھوڑ دیں گے تو وہ عزت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔اسے دیلمی نے مسند الفردوس (2/315) میں روایت کیا ہے ۔ دیکھیں  الضعيفة تحت رقم (1593) اور دیکھیں المقاصد الحسنة للسخاوي(291) رقم (717) اور حدیث منکر ہے اور دیکھیں کنز العمال (5/308) رقم (41147)۔

اٹھائیسویں حدیث: علیؓ سے مرفوعا روایت ہے :

"اللہ تعالی نے بدر کے دن ایسے فرشتوں کے ساتھ مدد فرمائی جنہوں نے یہ پگڑیاں باندھ رکھی تھیں ، یقینا پگڑی ایمان و کفر کے درمیان رکاوٹ ہے۔" اسے روایت کیا طیالسی نے بیہقی نے اس سے اور حدیث بالکل کمزور ہے جیسے کہ ضعیف الجامع رقم (1563) اور السلسلة الضعيفة (رقم : 3052) میں ہے ، مراجعہ کریں کنز العمال (15/306) رقم (41141)۔

انتیسویں حدیث:  دن کا سر ڈھانپنا عقل مندی اور رات کو ڈھانپنا مشکوک ہے ، اسے ابن عدی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے جیسے کہ فیض القدیر اور ضعیف الجامع رقم (2463) (ص: 362) میں ہے ۔

تیسویں حدیث : خالد بن معدان سے مرسل روایت ہے اللہ تعالی نے اس امت کی پگڑیوں اور جھنڈوں سے عزت فرمائی ہے اور تمہارا مسجد میں آنے اور قبروں میں دفن ہونے کیلئے سفید لباس سے بہتر کوئی لباس نہیں۔

کنز العمال (15/307) اور حدیث ضعیف ہے۔

اکتیسویں حدیث : ابو جعفر الانصاری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس دن عثمانؓ شہید ہوئے میں نے علیؓ کو کالی پگڑی باندھے دیکھا ۔ ابن أبي شيبة (8/234) رقم (5003) اور ابن سعد نے الطبقات (3/19/1) میں بواسطہ وکیع کے روایت کیا ہے ابن أبي شيبة کی روایت میں ہے "اور اس کے دونوں طرف کو پیچھے لٹکایا ہوا تھا۔"

بتیسویں حدیث: سلمہ بن وردان روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں میں نے انس کو بغیر ٹوپی کے پگڑی باندھے دیکھا اور انہوں نے ایک ہاتھ کے برابر سے لٹکایا تھا۔ ابن أبي شيبة (8/235) ، ابن سعد (7/11/1)۔

تینتیسویں حدیث : عثمان بن ابی ہند سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں ابی عبید پر کالی پگڑی دیکھی۔ ابن ابی شیبہ (7/235) ابن سعد (6/146)۔

چونتیسویں حدیث: ملحان بن ثروان روایت  کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے عبار بن یاسر پر کالی پگڑی دیکھی۔ ابن أبي شيبة (7/235) ابن سعد (6/151)۔

پینتسویں حدیث: دینار بن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے حسن پر کالی پگڑی دیکھی۔ ابن سعد (7/117) ابن أبي شيبة (8/235 ، 240)۔

چھتیسویں حدیث: ابو صخرۃ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن پر کالی پگڑی دیکھی۔ ابن أبي شيبة (7/236)۔

کالی پگڑی سعيد بن جبير و الأسودو البراء،  أبو الدرداء ، ابن الحنفية، واثله بن الأسقع ، حسين بن علي اور أبو نضرة وغیرہ صحابہ اور تابعینؓ سے ثابت ہے۔

مراجعہ کریں المصنف لابن أبي شيبة (8/236 - 238)۔

سعیدبن جبیر نے سفید پگڑی پہنی اور شعبی نے سفید پگڑی پہنی اس کا کنارہ ڈھیلا کیا اور لٹکایا نہیں۔

الطبقات لابن سعد (7/151، 6/175-186) ابن أبي شيبة (8/238)۔

سینتیسویں حدیث: براء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے ابو رافع کا کام تمام کرنے ایک جماعت بھیجی عبد اللہ بن عتیک اس کے کمرے میں رات کو داخل ہوئے ، وہ سویا ہوا تھا تو اسے قتل کردیا، اس حدیث میں ہے "میری پنڈلی ٹوٹ گئی میں پگڑی سے پٹی باندھی اور اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا ۔" الحدیث۔

بخاری (6/577) مشكاة (2/531) باب المعجزات۔

اڑتیسویں حدیث: مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وضوء کیا اور موزوں اور پگڑیوں پر مسح کیا ، ترمذی (1/32) أبو داود (1/31) مسلم (1/134) مشكاة (1/46) نسائي (1/25)۔

انتالیسویں حدیث : ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک جماعت بھیجی تو انہیں سردی لگی جب وہ آئے تو رسول اللہﷺ نے انہیں عصائب اور تساخین یعنی پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ۔ أبو داود (1/30)۔

چالیسویں حدیث: بلالؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا۔ ابن ماجه (1/91) اور سند اس کی صحیح ہے۔

اکتالیسویں حدیث:  عمرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو موزوں اور عمامہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ ابن ماجه (1/91) سند صحیح ہے۔

بیالیسویں حدیث:  نافع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ پگڑی باندھتے تھے اور اسے کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے ، نافع کے شاگرد عبید اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے مشائخ نے خبر دی کہ انہوں نے نبیﷺ کے صحابہ کو دیکھا وہ پگڑی باندھتے اور اس کے سروں کو کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے ، ابن أبي شيبة (8/239) اور اس کی سند صحیح ہے۔

تینتالیسویں حدیث: ھشام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابن زبیرؓ کو پگڑی باندھے دیکھا انہوں نے عمامہ کے دونوں کناروں کو سامنے کی طرف لٹکایا ۔ ابن أبي شيبة (1/239)۔

چوالیسویں حدیث: سلمہ بن وردان کہتے ہیں میں انس بن مالک پر پگڑی دیکھی انہوں نے اس کے کناروں کو پیچھے لٹکایا ہوا تھا۔ (ابن أبي شيبة)۔

پینتالیسویں حدیث: محمد بن قیس کہتے ہیں میں نے ابن عمرؓ کو پگڑی باندھے دیکھا انہوں نے پگڑی کے کنارے آگے اور پیچھے لٹکا رکھے تھے میں نہ جان سکا کہ ان دونوں میں کونسا زیادہ لمبا تھا۔ (ابن أبي شيبة)۔

چھیالیسویں حدیث: اسماعیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے شریح پر پگڑی دیکھی انہوں نے اسے پیچھے لٹکایا ہوا تھا ۔ یہ مقطوع صحیح ہے ابن أبي شيبة و ابن  سعد (2/96)۔

سینتالسویں حدیث: عبید اللہ بن عمر  سالم اور قاسم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے شریح کو ایک بل کی پگڑی باندھے دیکھا ، ابن ابی شیبہ (8/241) باب من كان يعتم بكور واحد ابن سعد (6/96)۔

انچاسویں حدیث: سلیمان بن ابی عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے اولین مہاجرین کو دیکھا وہ سیاہ ، سفید ، سرخ ، سبز ، زرد رنگ کی سوتی پگڑیاں باندھا کرتے تھے ، پگڑی سر پر رکھ کر اس پر ٹوپی رکھتے تھے پھر پگڑی کو ٹوپی پر گھماتے تھے اور اسے ٹوڑی کے نیچے سے نہیں نکالا کرتے تھے (ابن أبي شيبة)۔

پچاسویں حدیث: اسامہ سے روایت ہے کہ وہ پگڑی کو داڑھی اور حلق کے نیچے سے گزارنے کو مکروہ سمجھتے تھے (حوالہ مذکور)۔

اکیاونویں حدیث: ثابت عبید اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے زید بن ثابت پر تہبند ، چادر اور پگڑی دیکھی ۔ (حوالہ مذکور)۔

باونویں حدیث : عبد اللہ بن جعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ پر زعفران سے رنگے دو کپڑے  چادر اور عمامہ دیکھی ۔ اسے نکالا طبرانی اور حاکم نے جیسے امام سیوطی کی حاوی (2/104) میں ہے اور اس کی سند عبد اللہ بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے المجمع (5/129)۔

تریپنویں حدیث: عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے انہیں یہ بات پہنچی کہ بدر کے دن فرشتے اترے ان پر زرد رنگ کی پگڑیاں تھیں۔ زبیرؓ کی بھی اس دن زرد پگڑی تھی تو نبیﷺ نے فرمایا آج فرشتے ابو عبد اللہ جیسی نشانی پر اترے ہیں اور نبیﷺ تشریف لائے ان کی پگڑی بھی زرد تھی۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عامر بن صالح بن عبد اللہ بن عمرو بن الزبیر کہتے ہیں ، میرے دادا احمدﷺ کی پھوپھی کے بیٹے اور ابتلاء کے وقت ان کے وزیر ہیں اور سخت مصیبتوں کے شاہسوار ہیں۔ بدر کی صبح وہ پہلے شاہسوار تھے جو زرد پگڑی پہنے مصر کےمیں حاضر ہوئے۔  فرشتے مدد کیلئے حوض پر اس کی نشانی (زرد پگڑی) لیے اترے جس دن دشمنوں نے شر انگیزی کی۔

چونویں حدیث: امام بازریؒ نے (توثیق عری الایمان) میں ، امام اب قیمؒ نے زاد المعاد (1/50) میں اور امام سیوطیؒ نے الحاوی (1/۷۲) میں ذکر کیا ہے کہ نبیﷺ پگڑی کے نیچے ٹوپی پہنتے تھے اور ٹوپی بغیر پگڑی کے اور پگڑی بغیر ٹوپی کے بھی پہنا کرتے تھے اور جنگوں میں کانوں والی ٹوپی پہنا کرتے تھے اور اکثر سفر میں حرقانی سیاہ پگڑی باندھا کرتے تھے اور اعتجار بھی کرتے تھے اعتجار پگڑی کے نیچے سر کوئی کپڑا رکھنے کو کہتے ہیں۔

امام بازری کہتے ہیں کہ کبھی پگڑی نہ ہوتی سر اور ماتھے پر پٹی باندھ لیا کرتے تھے آپ کی سحاب نامی ایک پگڑی تھی جو آپ باندھا کرتے تھے تو وہ علیؓ کو دے دی تو علی جب وہ پگڑی سر پر باندھ کر نکلا کرتے تو آپ فرماتے علی تمہارے پاس سحاب میں آئے ہیں آپ کی مراد وہ پگڑی ہوا کرتی تھی جو آپ نے انہیں ہبہ فرمائی تھی ۔ دیکھو مرقاۃ (8/250)۔

پچپنویں حدیث : ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سفید ٹوپی پہنا کرتے تھے اسے بیہقی نے روایت کیا ہے جیسے کہ حاوی میں ہے۔

چھپنویں حدیث: امام نووی کہتے ہیں نبیﷺ کی ایک چھوٹی پگڑی بمقدار سات ہاتھ اور ایک بڑی پگڑی بمقدار بارہ ہاتھ تھی، جیسے مرقاۃ (8/249) میں ہے ۔ یہ باطل ہے کیونکہ پگڑی کی مقدار ثابت نہیں جیسے کہ امام سیوطیؒ نے حاوی (1/73) میں کہا ہے۔

احادیث ذکر کرنے کے بعد ان سے مستنبط مسائل ذکر کئے جاتے ہیں:

پہلا مسئلہ: پگڑی ہر وقت مسلمانوں کا شعار رہی ہے اس کی نماز یا علماء و ائمہ سے کوئی خصوصیت نہیں۔

دوسرا مسئلہ : پگڑی یا پگڑی میں نماز پڑھنے کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں ۔ اس کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ اسے نبیﷺ صحابہ ؓ اور ائمہ نے استعمال کیا۔

تیسرا مسئلہ : سر پر جو کچھ بھی لپیٹ لیا جائے وہ پگڑی کہلاتی ہے اس کی شرعا کوئی حد نہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ عام اوقات میں سات ہاتھ، نمازوں میں بارہ ہاتھ ، جمعہ اور عیدین میں چودہ ہاتھ اور جنگوں میں پندرہ ہاتھ پگڑی استعمال فرماتے تھے تو یہ لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا ہے اور اس نے نبیﷺ پر وہ جھوٹ باندھا ہے جو کسی نے نہیں باندھا۔

چوتھا مسئلہ : آپ نے ہر رنگ کی پگڑی استعمال فرمائی کالی پگڑی کے بارے میں احادیث بکثرت ہیں ، بالکل سرخ رنگ کی پگڑی کی کوئی حدیث ثابت نہیں بلکہ ایسے سرخ رنگ کے لباس سے نہی وارد ہے جس کا ذکر باب الاداب میں آئے گا ان شاء اللہ۔

پانچواں مسئلہ : پگڑی کا شملہ کندھوں کے درمیان لٹکانا ناجائز ہے خواہ یہ سملہ ایک ہو یا دو اور ایک کا آگے اور دوسرے کا پیچھے لٹکانا بھی جائز ہے اور پگڑی بغیر شملے کے بھی جائز ہے۔

شملے کی طول کی کوئی حد مقرر نہیں :

البتہ ارسال اور اسبال حرام ہے ، اس کا ذکر آداب میں ان شاء الله آئے گا۔ دیکھو نیل الاوطار (3/105)۔

اور جو کہتا ہے کہ دْم کا چھوڑنا گناہ ہے ، قاضی بقدر چھتیس انگلی چھوڑے ، خطیب بقدر  اکیس انگلی ، عالم بقدر ستائیس انگلی ، طالب علم بقدر دس انگلی، اور عام آدمی بقدر چار انگلی چھوڑے ، جیسے ضياء القلوب (ص: 153) میں ہے تو وہ "تقول على الله" کا مرتکب ہے دین حنیف ایسے تعمق کے دلدادہ مبتدعین کے فساد کا شکار ہے  خذلهم الله ۔

چھٹا مسئلہ : پگڑی کا حکم یہ ہے کہ اگر ہوئی استحباب کے درجے میں نبیﷺ کی تابعداری کی نیت سے استعمال کرتا ہے تو اسے اجر ملے گا اور اگر شہرت و ریاء کیلئے استعمال کرتا ہے تو گنہگار ہے اور جو استعمال نہیں کرتا تو وہ معذور ہے اس پر نہ کوئی گناہ ہے نہ ملامت اور جو استعمال عمامہ کا انکار کرتا ہے واجب سمجھتا ہے تو وہ شریعت غراء کے محاسن سے نا واقف ہے۔

ساتواں مسئلہ : ٹوپی یا ٹوپی کے بغیر پگڑی کا باندھنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں کسی صحیح حدیث میں نہی وارد نہیں۔

آٹھواں مسئلہ : پگڑی پر مسح جائز ہے اس اثر کی وجہ سے جو جامع الترمذی (1/32) میں ہے۔

نواں مسئلہ: نماز کیلئے پگڑی پہننا اور نماز کے بعد اتار کر رکھ دینا بدعت ہے اور نمازیوں  کے ساتھ ترک عمامہ اور ایسے دیگر مسائل پر جھگڑنا بدعت اور غلو فی الدین ہے۔

مولانا رشید اھمد گنگوہی فتاوی رشیدیہ (ص: 34) میں لکھتے ہیں:

"تارک عمامہ سے جھگڑنے والا جاہل ہے اور عمامہ کے بغیر نماز مکروہ نہیں۔"

شیخ البانی ؒ الضعيفة (1/162) رقم (127) میں کہتے ہیں ان بے ثبوت احادیث کا یہ اثر ہے کہ ہم بعض لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سر یا ٹوپی پر رومال لپیٹ لیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے خیال کے مطابق ثواب مذکور ملے جبکہ وہ نفس کی طہارت وتزکئے کا کوئی عمل نہیں کرتے ، عمامہ کی اگر کوئی فضیلت ہے تو اس سے مراد وہ عمامہ ہے جس کے ساتھ مسلمان عام حالت میں زینت حاصل کرتا ہے اور جو نماز کے وقت مستعار پگڑی استعمال کرتا ہے اس کی مثال تو ایسی ہے جو نماز پڑھاتے وقت مستعار و مصنوعی داڑھی لگالے۔ الخ۔ تلخیص کے ساتھ۔

اور (3/362) رقم (1217) میں حدیث ہمارے اور مشرکوں کے مابین فرق پگڑی کا ٹوپی پر باندھنا ہے ، (باطل ہے)  کے تحت کہتے ہیں ؛ یہ حدیث میرے نزدیک باطل ہے کیونکہ پگڑی کے بل زیادہ کرنے نبیﷺ کی سیرت کے خلاف ہے جو شہرت کا لباس ہے اور اس سے روکا گیا ، امام بخاریؒ فرماتے ہیں عمامہ کی فضیلت والی حدیثیں بعض بعض سے زیادہ کمزور ہیں۔

دیکھئے المقاصد الحسنة (ص: 291)۔

دسواں مسئلہ: رہا ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ تو صحیح یہ ہے کہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ بیہقی (2/235) اور طبرانی ابن عمرؓ سے صحیح حدیث ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا؛ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے کپڑے پہن لیا کرے اللہ تعالی زیادہ حقدار ہے کہ اس کیلئے زینت کی جائے۔ الحدیث۔ معارض نہ ہو تو یہ عام دلیل ہی کافی ہے۔

اور سید سابق کا فقہ السنۃ (1/155) میں ابن عباسؓ کی حدیث کہ "نبیﷺ کبھی اپنی ٹوپی اتار کر اپنے سامنے رکھتے اور سترہ بناتے" سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے مطلق سر ننگا کرنا ثابت نہیں ہوتا اس سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سترہ نہ ملنے کی صورت میں ایسا کیا گیا ، کیونکہ  سترہ کا ہونا بھی ضروری ہے اس میں حدیثیں وارد ہیں۔

اسی لئے شیخ البانیؒ نے تمام المنۃ (ص: 1654) میں کہا ہے اس مسئلے میں میری رائے تو یہ ہے کہ ننگے سر نماز مکروہ ہے "اور میرے نزدیک خلاف استحباب ہے اور یہ اس لیے کہ مسلمان کا نماز میں مکمل اسلامی حالت میں داخل ہونا مستحب ہے ، سابقہ حدیث فان الله أحق من تزين له کی وجہ سے سلف کے عرف میں یہ اچھی هيئت نہیں کہ راستوں میں ننگے سر  گھومنے اور عبادت کی جگہوں میں داخل ہونے کی عادت اپنائی جائے بلکہ یہ غیروں کی عادت ہے جو بہت سارے اسلامی ملکوں میں کافروں کے آنے جانے اور اپنی فاسد عادتیں ساتھ لانے کی وجہ سے در آئی ہے اور مسلمان اس میں اور دیگر عادتوں میں ان کی تقلید کرنے لگے جس سے ان کا اسلامی تشخص ضائع ہوا۔ تو یہ نئی چیزیں  قدیم اسلامی عرف کی مخالفت کی وجہ سے کیسے جائز ہو سکتی ہیں ! اور نہ ہی اسے نماز میں ننگے سر داخل ہونے کے جواز کی دلیل بنایا جا سکتا ہے۔"

"اور مصر میں انصار السنۃ کے بوض دوستوں کا محر کا حج میں سر ننگا رکھنے پر قیاس کرتے ہوئے اس کے جواز  کا استدلال سب سے بڑا باطل قیاس ہے جو ان بھائیوں سے میرے مطالعہ میں آیا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے ؛ حج میں سر ننگا رکھنا اسلامی شعار ہے اور یہ حج کے مناسک میں سے ہے جس میں اس کے ساتھ اور کوئی عبادت شریک نہیں ، اگر مذکورہ قیاس صحیح ہو تو اس سے سر ننگا رکھنے کا وجوب لازم آتا ہے کیونکہ یہ حج میں واجب ہے اور یہ الزام اس قیاس سے رجوع کیے بغیر  ختم نہیں ہوتا ، شاید وہ ایسا کر گزریں۔"

پھر اس حدیث "آو مساجد کو ننگے سر اور پگڑی باندھ کر " کی تضعیف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں میسرہ بن عبد اللہ ہے اور وہ اپنے اعتراف سے وضاع ہے۔ الخ۔

میں کہتا ہوں : مجموع الفتاوى لشيخ الاسلام ابن تيميةؒ (22/117) میں میں نے دیکھا وہ کہتے ہیں : "اسی لیے اب عمرؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا ، "بتا اگر تو لوگوں کے پاس اس حالت میں نکلے گا" اس نے کہا نہیں ، تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی تیرے جمال کا زیادہ حقدار ہے" اور حدیث صحیح میں ہے جب آپﷺ کو کہا گیا کہ ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، اس کے جوتے اچھے ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: ان الله جميل يحب الجمال "اللہ تعالی جمیل ہے اور جمال پسند فرماتا ہے۔"

اس بنا پر مرد کا مرد سے استتار اور عورت کا عورت سے استتار کی بنسبت حالت نماز میں استتار میں زیادہ مبالغہ ہونا چاہیئے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ...٣١﴾...سورة الاعراف

"تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو"

پہلے یہ معلوم ہوچکا کہ سر ننگا کرنا زینت نہیں اور یہ سلف کی عادت نہیں ۔ نماز میں خشوع تذلل کیلئے سر ننگا کرنا دین میں ایسی بدعت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں سوائے رائے کے اگر یہ حق ہوتا نبیﷺ ضرور کرتے اور اگر انہوں نے کہا ہوتا تو ہمارے پاس نقل ہو کر ضرور آتا جب منقول نہیں تو یہ اس کے بدعت ہونے کی دلیل ہے اس لیے اس بچنا چاہیئے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص239

محدث فتویٰ

تبصرے