سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) افضل یہ ہے کہ تین دن سے پہلے قرآن ختم نہ کیا جائے

  • 11792
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 1984

سوال

(14) افضل یہ ہے کہ تین دن سے پہلے قرآن ختم نہ کیا جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی ان لوگوں کےلیے کیانصیحت ہے جو ایک مہینہ بلکہ کئی کئی ماہ  قرآن  کریم کو ہاتھ نہیں لیکن غیر مفید اخبارات  وجرائد پڑھتے رہتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہرمرد اور عورت کے لیے مسنون یہ  کہ وہ غور وفکر اورتدبر کےساتھ کثرت سے قرآن مجید کی زبانی یادیکھ کرتلاوت کرتا رہا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَ‌كٌ لِيَدَّبَّر‌وا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ‌ أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٢٩﴾... سورة ص

’’یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذينَ يَتلونَ كِتـٰبَ اللَّهِ وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَأَنفَقوا مِمّا رَ‌زَقنـٰهُم سِرًّ‌ا وَعَلانِيَةً يَر‌جونَ تِجـٰرَ‌ةً لَن تَبورَ‌ ﴿٢٩ لِيُوَفِّيَهُم أُجورَ‌هُم وَيَزيدَهُم مِن فَضلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفورٌ‌ شَكورٌ‌ ﴿٣٠﴾... سورة فاطر

 ’’(جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیده اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وه ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خساره میں نہ ہوگی۔()تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیاده دے بےشک وه بڑا بخشنے واﻻ قدردان ہے۔‘‘

تلاوت مذکورہقرآن مجید کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے دونوں کو شامل ہے۔غور وفکر تدبر اور اللہ تعالیٰ کےلیے اخلاص کے ساتھ کی جانےوالی تلاوت قرآن مجید کےمطابق عمل کاوسیلہ قثابت ہوتی ہے اور اس کا ثواب بھی بہت ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ہے:

((اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ)) (صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب  قراءۃ القرآن وسورۃ البقرہ ح:804)

’’ قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘

آپ نے  یہ بھی فرمایا:

 (خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ)  (صحیح البخاری ‘ فضائل القرآن باب: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘ح :5027)

 ’’تم میں سےسب سےبہتر وہ ہے جو قرآن  مجید پڑھے اور پڑھائے۔‘‘

آپ نےیہ بھی فرمایاہے:

«مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ»(جامع الترمذي فضائل القرآن باب ماجا في من قراء حرفا من القرآن..الخ ح:2910)

 ’’(جس نے قرآن مجید میں سے ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی دی جائے گی اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے میں نہیں کہتا کہ الم (ایک) حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم بھی ایک حرف ہے۔‘‘

«وَاقْرَإِ القُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ »

       ’’ ہرماہ ایک بار قرآن مجید پڑھ لیاکرو۔‘‘

انہوں نے عرض کیا کہ مجھے  اس  سے زیادہ پڑھنےکی طاقت ہےتو آپ نےفرمایا:

(فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ)(صيح البخاري  فضائل القرآن باب في كم يقرا القرآن ؟ح:5054وصحيح مسلم الصيام باب النهي عن صوم الدهر... الخ ح:1159)

’’سات دنوں میں  ایک بار پڑھ لیاکرو۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھاکہ ہرسات دنوں  کےبعد قرآن مجید ختم کیاکرتے تھے۔ قرآن مجید کے تمام پڑھنے والوں کےلیے  میری  وصیت ہے کہ وہ تدبر غور وفکر  اللہ تعالیٰ کےلیے  اخلاص اور قرآن  سے استفادہ وعلم کے قصد سے زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں اور ہرماہ ایک بار ضرور ختم کریںاور اگر ایک ماہ سے کم مدت میں ختم کرنا ممکن ہو تو یہ خیر عظیم ہے۔سات  دنوں سے کم مدت میں ختم کیا جاسکتاہے لیکن افضل یہ ہے کہ تین دن کی مدت  ہے جیساکہ  آپ نے سیدنا عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے  فرمایا تھا۔ اگر کوئی شخص  تین دن سے پہلے  ختم کرلے  تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے بہت تیز بھی پڑھا ہے اور غور فکر بھی نہیں کیا۔

(صحیج بخاری فضائل القرآن باب فی کم یقراالقرآن حدیث:5052صحیح مسلم الصیام باب النھی عن صوم الدھر......حدیث:1159)

قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں  طہارت کے بغیر پڑھنا جائز نہیں  کہ وہ غسل کیے بغیر دیکھ کریا زبانی تلاوت  کیونکہ  امام  احمد اور اہل سنن  نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت  کیا ہے: ’’نبیﷺ کوقرآن کی تلاوت  کےلیےجنابت کے سوا  اور کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔‘‘(ابوداود الطھارہ باب فی الجنب یقرالقرآن حدیث:229)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص27

محدث فتویٰ

تبصرے