السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کے دن ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا نماز کے بعد معانقہ و مصافحہ ثابت ہے ؟ اس کی ذرا ہمیں وضاحت فرما دیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیئے کہ اچھا طریقہ طریقہ محمدی ہے اور عید کے دن معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادی آپﷺ کا طریقہ نہ تھا ، جیسے کہ ہمارے علاقوں میں عادت ہے اور اس قسم کا ہر کام بدعت ہے اور نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے (مسلم)۔
مگر صحابہ ؓ جب عید پڑھ کر واپس آتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنكم" کہتے جیسے کہ الجوهر النقى (3/319) باب قول الناس في العيد تقبل الله منا ومنك میں ہے ، محمد بن زیاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابو امامہ باھلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو ایک دوسرے کو کہتے ، اللہ تعالی ہم سے بھی قبول کرے اور آپ سے بھی۔
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں اس کی سند عمدہ ہے امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں اس مضمون کو ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں اور اسی طرح هيثمي ؒ نے مجمع الزوائد (2/206) باب التهنئة بالعيد میں ایک حدیث ذکر کی ہے اور اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور اسی وجہ سے امام ابن قدامۃ ؒ نے المغنی (2/250) میں کہا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں "اگر کوئی شخص دوسرے کو عید کے دن "تقبل الله منا ومنكم" کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔"
حربؒ کہتے ہیں : "امام احمدؒ سے عیدین میں لوگوں کا "تقبل الله منا ومنكم" کہنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ۔" اہل شام ابو امامہؓ سے اسے روایت کرتے ہیں۔
پوچھا گیا : اور واثلہ بن اسقع ؟ فرمایا : "ہاں" کہا گیا کہ عید کے دن اگر یہ کہا جائے تو آپ اسے مکروہ نہیں سمجھتے تو انہوں نے کہا "نہیں"۔
اور ابن عقیلؒ نے عید کی مبارک بادی کے بارے میں کچھ حدیثیں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک محمد بن زیاد کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں میں ابو امامہ الباہلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید سے واپس ہوتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنك" کہتے اور امام احمدؒ ابو امامہ کی حدیث کی سند کو جید کہتے ہیں اور علی بن ثابت کہتے ہیں میں مالک بن انس سے پینتیس سال سے پوچھتا رہا ہوں وہ کہتے ہیں یہ مدینہ میں معروف چلا آرہا ہے۔
اور امام احمدؒ کہتے سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں کسی کو ابتداء نہیں کہوں گا اور کسی نے مجھے کہا تو میں اسے جوابا کہوں گا۔
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا : کہ عید کی مبارکبادی اور "عید مبارک " جو زبان زد عام ہے اور اس جیسے اور کلمات کیا اس کی شریعت میں اصل ہے یا نہیں ؟ اور اس کی شریعت میں اصل ہے تو کیا کہنا چاہیئے ؟ ہمیں فتوی دیں اللہ تعالی آپ کو اجر دے تو انہوں نے جواب دیا ؛ عید کے دن مبارکبادی کے طور پر نماز عید کے بعد ملتے وقت "تقبل الله منا ومنكم" اللہ تعالی ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔ اور "أحاله الله عليك" اللہ تعالی اسے تم پر دوبارہ لائے، وغیرہ کہنا تو یہ صحابہ کے ایک طائفہ سے مروی ہے کہ وہ یہ کرتے تھے اور ائمہ میں امام احمد وغیرہ نے اس کی رخصت دی ہے، لیکن امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ پہل نہیں کرونگا اگر کسی نے مجھ پر پہل کی تو میں اسے جواب دونگا اس لیے کہ تحیہ کا جواب دینا فرض ہے اور مبارکبادی کی پہل کرنی مامور بہا سنت نہیں اور نہ اس سے روکا گیا ہے کرنے والے کے بھی مقتداء ہیں اور چھوڑنے والے کے بھی مقتدا ہیں۔
میں کہتا ہوں: کہ مسجد میں شور مچانا اور معانقہ کرنا جبکہ وہیں اکھٹے رہنے والے ہوں تو یہ بدعت و معصیت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب