سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) دعا کے الفاظ کا تین بار تکرار

  • 11784
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1512

سوال

(120) دعا کے الفاظ کا تین بار تکرار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا دعا کا تین بار تکرار سنت مطہرہ سے ثابت ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیحین میں ثابت ہے جیسے کہ مشکوۃ (2/523) میں عبد اللہ بن مسعود ؓ مروی ہے نبیﷺ نے فرمایا: "اے اللہ قریش کا مواخذہ فرما ، تین بار کہا اور آپ جب بھی دعا فرماتے تو تین بار دعا فرماتے اور جب سوال کرتے تو تین بار سوال کرتے" مراجعہ کریں المجمع (10/151)، فتح الباري (11/161)

اور تین بار دعا سے مراد لفظ دعا کا تین بار تکرار کرنا ہے نہ کہ دعا کے لیے ہاتھوں کا تین بار اٹھانا۔

دعا میں رفع الیدین کا تین بار تکرار ہم نے صرف ایک حدیث میں دیکھا ہے جو صحیح مسلم (1/313) کتاب الجنائز میں ہے۔

عائشہ ؓ سے مروی ہے "پھر آپ نے تین بار ہاتھ اٹھائے  اور  یہ زیارۃ قبور میں " یہ جاننا چاہیئے کہ دعا تمام عبادتوں میں افضل عبات ہے جیسے کہ امام احمد ؒ، ترمذی ؒ کی حدیث میں ہے "دعا ہی عبادت ہے" اور عبادت کی بنیاد توقیف اور اتباع پر ہوتی ہے بدعت اور خواہش پر نہیں تو ان احادیث ہر قیاس کرتے ہوئے فرض نمازوں کے بعد یا سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کا ثابت کرنا جائز نہیں یہ تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔

اسی لیے امام ابن تیمیہؒ (22/512، 514) نے فرمایا ہے ، "نبی ﷺ سے فرض نمازوں کے بعد جو منقول ہے وہ اذکار معروفہ ہیں جو صحاح و سنن اور مسانید میں ہیں پھر وہ  اذکار ذکر کئے ہیں اور بعد میں کہا ہے "امام اور مقتدیوں کا اکھٹے دعا کرنا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ فرض نمازوں کے بعد نبیﷺ نے کہیں کیا ہو جیسے کہ اذکار ماثورہ کرتے تھے اگر کیا ہوتا تو صحابہ ضرور نقل فرماتے اور ان سے تابعین اور علماء نقل کرتے  جیسے کہ دیگر اور نقل کئے ہیں۔"

میں کہتا ہوں مطلق دعاوں میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں سو لگ بھگ صحیح احادیث آئی ہیں جیسے کہ قواعد التحدیث للقاسمی (ص: 146) میں ہے۔

اور زبیدی نے اپنے رسالے میں مفرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کا جواز ذکر کیا تو اس نے صحیح احادیث ذکر نہیں کیں جیسے کہ السلسة (3/13) اور هية كبار العلماء (1/245) اور سنن والمبتدعات (1/70) اور زاد المعاد (1/87) میں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص232

محدث فتویٰ

تبصرے