السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید کی تلا وت با عث اجر و ثوا ب ہے رمضا ن المبا ر ک میں اس تلا وت کا ثوا ب کئی گنا بڑ ھ جا تا ہے ہما ر ے ہا ں ایک کتا بچہ اس حوالہ سے تقسیم کیا جا تا ہے جس کا عنوا ن ہے :"صرف 9منٹ میں 9قرآن پا ک اور ایک ہزا ر آیات پڑھنے کا ثوا ب مل سکتا ہے اس میں احادیث کے حوا لہ جا ت بھی مو جو د ہیں حقیقت حا ل سے آگا ہ فر ما ئیں (حا فظ عبد الغفا ر السہیل میا ں چنوں )؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احا دیث میں بعض سو رتوں اور آیا ت کی فضیلت کے پیش نظر سوال میں مذکو رہ اعداد شما ر کو کا فی خیا ل کر لیا گیا ہے مثلاً:سورۃاخلا ص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہا ئی قرآن کے برا بر بیا ن فر ما یا ہے ۔(صحیح بخا ری :فضا ئل قرآن 5013)
محدثین کر ام نے اس کا مفہو م یہ بیا ن کیا ہے کہ قرآن کر یم احکا م اخبا ر اور تو حید کے بیا ن پر مشتمل ہے چو نکہ اس میں تو حید خا لص بیا ن کی گئی ہے اس لیے اسے ثلث قرآن کے مسا وی قرار دیا گیا ہے ا گر چہ بعض حضرات نے اس کی قرا ت کے ثوا ب کو ایک تہا ئی قرآن پڑ ھنے کے ثواب کے برا بر بتا یا ہے ۔( فتح البا ر ی : ج 9ص77)
لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسا ن سوال میں زکر کر دہ اعدادو شما ر کی جمع و تفریق میں لگا رہے اور قرآن کر یم کی تلا و ت کو نظر اندا ز کر دے جیسا کہ حدیث میں ہے :"کہ اگر کو ئی رمضا ن المبا ر ک میں عمرہ کر تا ہے تو اسے حج کے برا بر ثوا ب ملتا ہے اس کا مطلب فریضہ حج سے صرف نظر کر نا قطعاً نہیں ہے بعض سو رتوں کے فضا ئل احا دیث میں مر وی ہیں لیکن وہ احا دیث محد ثین کے معیا ر صحت پر پو ری نہیں اتر تیں جیسا کہ سورۃ الز لز ال کے متعلق ہے کہ وہ نصف اور سور ۃ الکا فرو ن ربع قرآن کے ا مسا وی ہے لیکن اس کی سند میں یما ن بن مغیرہ نا می راوی ضعیف ہے نیز بعض احا دیث میں ہے کہ سورۃ النصر ر بع قرآن اور آیت الکر سی بھی ربع قرآن کے برا بر ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی سلمہ بن وردان ضعیف ہے جیسا کہ محد ثین کرا م نے اس کی وضا حت کی ہے ۔(فتح البا ر ی : ج 9ص78)
مذکو رہ کتا بچہ میں بعض احا دیث مسند دیلمی کے حو الہ سے بیا ن کی گئی ہیں محد ثین کرا م کے فیصلے کے مطا بق اس کتا ب کی بیشتر احا دیث مو ضو ع اور خو د سا ختہ ہیں بہر حا ل سور ۃ اخلا ص کی فضیلت صحیح ثابت ہے لیکن کسی صحیح حدیث سےیہ ثا بت نہیں ہو تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر صحابہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین نے قرآن کی تلا وت کو نظر انداز کر کے صر ف سور ۃ اخلاص کو تین مر تبہ پڑھنے کو کا فی سمجھ کیا ہو عا م مشہو ر ہے کہ بر گد کے دودھ میں والدہ کے دودھ کی تا ثیر ہو تی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ بچے کو والد ہ کا دود ھ نہ پلا یا جا ئے صرف بر گد کے دودھ پر اکتفا کر لیا جا ئے اسی طرح قرآنی سورتوں کی فضیلت اپنی جگہ درست ہے لیکن اعداد و شما ر کے پیش نظر صرف انہیں پڑھتا رہے اور قرآن کریم کی تلا وت نہ کر ے یہ کسی صورت میں صحیح نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب