السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے بھا نجے کی شا دی میر ی بھتیجی کے ساتھ ہو نا طے پا ئی منگنی وغیرہ تین سا ل قبل ہو چکی ہے جبکہ نکا ح 22دسمبر2004ءکو متو قع ہے شو مئی قسمت سے میر ے بھانجے نے ازراہ ہمدردی کسی کو اپنا خو ن دینے کا ارادہ کیا جب خو ن چیک کرا یا تو پتہ چلا کہ اسے ہیپا ٹا ئٹس سی کا مر ض ہے کچھ ڈا کٹر حضرات کی را ئے ہے کہ بھانجے کی شا دی اس کی بھتیجی سے نہ کی جا ئے کیوں کہ شا دی کے بعد بیما ری کے جرا ثیم بھتیجی میں منتقل ہو سکتے ہیں اوراس کے لیے جا ن لیوا ثا بت ہو سکتے ہیں اس صورتحا ل کے پیش نظر بھتیجی کے وا لدین اس شا دی سے خو فزدہ ہیں کہ اس نکا ح سے ہما ری بیٹی زیا دہ متا ثر ہو گی شا دی نہ ہو نے سے یہ بھی اند یشہ ہے کہ دو قریبی رشتہ داروں کے در میا ن جدا ئی اور قطع تعلقی پیدا ہو جا ئے برا ئے مہر با نی قرآن و سنت کی رو شنی میں دو نو ں خاندانوں کی صحیح را ہنما ئی فر ما ئیں آپ کے جوا ب کا شد ت سے انتظا ر ہے (حفیظ الرحمن اسلام آبا د :خریداری نمبر 5826)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دور جا ہلیت میں تو ہم پر ستی عا م تھی یعنی بیما ریوں کے متعلق ان کاعقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے با لا با لا ذا تی اور طبعی طو ر پر متعدی ہیں گو یا وہ اڑ کر دوسروں کو چمٹ جا تی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کا ابطا ل کر تے ہوئے فر ما یا :" کہ کو ئی بیما ری متعدی نہیں ہو تی ۔(صحیح بخا ری :5772)
اس حد یث کا واضح مفہو م یہ ہے کہ کو ئی بیما ر ی طبع کے اعتبا ر سے دوسروں کو نہیں لگتی بلکہ اللہ کے حکم اور اس کی تقد یر سے دوسروں کو لگتی ہے جیسا کہ ایک دوسر ی روا یت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ر جا ہلیت کے عقیدہ فا سد کی نفی کر تے ہو ئے فر ما یا کہ کو ئی بیما ی متعد ی نہیں ہو تی تو ایک اعرا بی کھڑا ہو کر عر ض کر نے لگا کہ ہما ر ے او نٹ ریتلے میدا ن میں ہر نو ں کی طرح ہو تے ہیں جب ان کے ہا ں کوئی خا ر شی اونٹ آجا تا ہے تو سب اونٹ خا ر ش زدہ ہو جا تے ہیں اس کے جوا ب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ پہلے اونٹ کو کا ر شی کس نے بنا یا تھا ؟"(صحیح بخا ری :الطب 5775)
آپ کا جوا ب انتہا ئی حکمت بھرا تھا کیوں کہ اگر وہ جوا ب دیتے کہ پہلے اونٹ کو بھی کسی دوسر ے سے خا ر ش کی بیما ر ی لگی تھی تو یہ سلسلہ لا تنا ہی ہو جا تا اور اگر یہ جوا ب دیتے کہ جس ہستی نے پہلے اونٹ کو خا رشی بنا یا اسی نے دوسرے میں خا ر ش پیدا کر دی تو یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تما م اونٹوں میں یہ فعل جا ر ی کیا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز پر قا در ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اس جا ہلا نا عقیدہ کی بیخ کئی کی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذو م یعنی کو ڑ ھی کا ہا تھ پکڑ ا اور اسے اپنے سا تھ کھا نا کھلا نے کے لیے پیا لہ پر ہی بٹھا لیا اور فر ما یا :"کہ اللہ پر بھرو سہ کر تے ہو ئے اور اس کا نا م لے کر کھاؤ۔(ترمذی :1817)
صدیقہ کا ئنا ت حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیر ت طیبہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے چنا نچہ ان کا ایک غلام کو ڑ ھ کے مر ض میں مبتلا تھا وہ آپ کے برتنوں میں کھا تا اور آپ ہی کے پیا لہ سے پا نی پیتا اور بعض دفعہ آپ کے بستر پر لیٹ بھی جا تا تھا ۔(فتح البا ر ی :ص197ج10)
ان احا دیث وو اقعا ت سے معلو م ہو تا ہے شریعت نے امرا ض کے وبائی طو ر پرلگ جا نے کی نفی فر ما ئی ہے البتہ ان کے الاسباب متعد ی ہو نے کا اثبا ت فر ما یا ہے یعنی اصل مؤ ثر حقیقی تو اللہ کی ذا ت گرا می ہے اور اس نے بعض ایسے اسبا ب پیدا کیے ہیں جن کے پیش نظر امرا ض متعد ی ہو جا تے ہیں جیسا کہ ایک روا یت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرا ض کے ذا تی طو ر پر متعد ی ہو نے کی نفی فر ما ئی تو حدیث کے آخر میں فر ما یا کہ مجذو م یعنی کو ڑ ھی انسا ن سے اس طرح بھا گو جس طرح شیر سے بھا گتے ہو ۔ (صحیح بخا ری :الطب 5707)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضعیف الا عتقا د لو گو ں کی رعا یت کر تے ہو ئے ایسا فر ما یا تا کہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیما ری لگ جا نے سے ان کے عقیدہ میں مز ید خرا بی نہ پیدا ہو کہ کہنے لگیں "ہمیں تو فلا ں مر یض سے بیماری لگی ہے حا لانکہ بیما ر ی لگا نے وا لا تو اللہ ہے اس مو قف کی تا ئید ایک روا یت سے ہو تی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرا ض کے متعدی ہو نے کی نفی فر ما ئی تو آخر میں فر ما یا :" بیما ر اونٹو ں کو تند رست اونٹو ں کے پا س مت لے جاؤ۔(صحیح بخا ری :الطب 5771)
امرا ض کے با لا سبا ب متعد ی ہو نے اور ضعیف الا عتقا د لو گوں کے عقائد کی حفا ظت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا جس علا قہ میں طا عو ن کی وبا پھیلی ہو وہا ں مت جا ؤ اگر تم وہا ں رہا ئش رکھے ہو ئے ہو تو را ہ فرار اختیا ر کر تے ہو ئے وہاں سے مت نکلو ۔(صحیح بخا ر ی : الطب 5730)
امرا ض کے با لا سباب متعد ی ہو نے میں بھی اس با ت کا بطو ر خا ص خیال رکھنا چا ہیے کہ اصل مؤ ثر حقیقی اللہ تعا لیٰ کی ذا ت با بر کا ت ہے نہیں ہے کہ سبب کی مو جو دگی میں بیما ر ی بھی آمو جو د ہو کیوں کہ بسا اوقا ت ایسا ہو تا ہے کہ سبب مو جو د ہو تا ہے لیکن بیما ر ی نہیں آتی بیماری کا آنا یا نہ آنا اللہ تعا لیٰ کی مشیت پر مو قف ہے اگر وہ چا ہے تو مؤثر کر کے وہا ں بیما ر ی پیدا کر دے اگر چا ہے تو سب کو غیر مؤ ثر کر کے وہا ں بیما ر ی پیدا نہ کر ے ۔(فتح البا ر ی :ج 10ص198)
اس با ت کا ہم خو د بھی مشا ہدہ کر تے ہیں کہ جس علا قہ میں وبا ئی امراض پھو ٹ پڑ تی ہیں وہاں تما م لو گ ہی اس کا شکا ر نہیں ہو جا تے بلکہ اکثر و بیشتر ان کے اثرا ت سے محفو ظ رہتے ہیں طبی لحا ظ سے اس کی تعبیروں کی جا سکتی ہے کہ جن لو گوں میں قوت مدا فعت زیا دہ ہو تی ہے وہ بیما ر ی کا مقا بلہ کر کے اس سے مھفو ظ رہتے ہیں اور جن میں یہ قو ت کم ہو تی ہے وہ بیما ر ی کا لقمہ بن جا تے ہیں اس وضا حت کے بعد ہم مذکو رہ سوال کا جا ئز لیتے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی تہذیب کے علمبردا ر (یہو دو نصا ریٰ ) یہ نہیں چا ہتے کہ مسلما ن اعتقا د ی عملی اور اخلا قی و ما لی اعتبا ر سے مضبو ط ہو ں وہ آئے دن انہیں کمزور کر نے کے لیے منصو بہ بند ی کر تے رہتے ہیں ہما ر ے خیا ل کے مطابق ہیپا ئٹس کے کے متعلق میڈیا پر شور غل اور چیخ و پکا ر بھی مسلمانوں کو اعتقا دی اور ما لی اور ما لی لحا ظ سے کمزو ر کر نے کا ایک مؤثر اور سو چا سمجھا منصو بہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے اس کے متعلق غیر فطر تی چر چہ شروع ہو ا ہے گھروں میں کو ئی نہ کو ئی اس مر ض کا شکا ر ہے ایک گھر میں رہتے ہو ئے بھا ئی بہن بیٹا با پ مان اور بیوی خا و ند اس چھوت میں مبتلا ہو گئے ہیں پہلے تو اس کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ہزاروں روپیہ ان کی نذر ہو جا تا ہے پھر اس کا علا ج اس قدر گرا ں ہے کہ عا م آد می کے بس کی با ت نہیں ہے جو گھر کے با شند ے اس مر ض سے محفوظ ہیں ہیں انہیں حفا ظتی تدا بیر کے چکر میں دا ل کر پھا نس کیا جا تا ہے حفا ظتی ٹیکے بہت مہنگے اور بڑی مشکل سے دستیا ب ہو تے ہیں عوا م کو خو فزدہ کر نے کے لیے یر قا ن کا نا م بد ل ہیپا ٹا ئس رکھ دیا گیا ہے یہ مرض پہلے بھی مو جو د تھی لیکن اس کے جرا ثیم دیکھے نہیں جا سکتے تھے اس لیے نفسیا تی طو ر پر لو گو ں آرا م اور سکو ن تھا جب سے خو رد بیٹی آلا ت ایجا د ہو ئے ہیں ہیپاٹائس اے بی سی در یا فت ہو ا ہما ر ی معلومات کے مطا بق ڈی بھی دریا فت ہو چکا ہے اس کے متعلق تحقیق و ریسر چ جا ر ی ہے ہما ر ے خیا ل کے مطا بق مسلما نوں کے عقا ئد اور ان کی ما لی حا لت کمزور کر نے کا یہ مغربی پرو پیگنڈہ ہے جس کی وجہ سے ہم تو ہم پر ستی کا شکا ر ہو گئے ہیں اور علا ج اس قدر منگا ہے کہ ہم قرض پکڑ کر اس کا علا ج کرا تے ہیں ان حا لا ت کے پیش نظر ہما را سا ئل کو مشورہ ہے
(1)اللہ پر اعتقا د اور یقین رکھتے ہوئے حس ب پرو گرا م شا دی کر دی جا ئے اس پرو پیگنڈے سے خو فزدہ ہو کر اسے معرض التوامیں ڈا لنے کی کو ئی ضرورت نہیں ۔
(2)اگر وا لدین اس پرو پیگنڈے سے متا ثر ہےں تو طے شدہ تا ر یخ پر نکا ح کر دیا جا ئے لیکن رخصتی کو ملتوی کر دیا جا ئے تا آن کہ بچے کا علا ج مکمل ہو جا ئے اور بچی کو بھی حفا ظتی ٹیکے لگا دئیے جا ئیں ۔
(3)اگر وا لد ین اس قد ر پر یشا ن ہیں کہ انہوں نے اس طے شدہ پرو گرا م کو ختم کر نے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہما ر ے نز د یک یہ گنا ہ ہے کیوں کہ ایسا کر نا صلہ رحمی کے خلا ف ہے اور مغر بی اثرا ت سے متا ثر ہو نا بھی مسلما ن کی شا ن کے خلاف ہے ۔
(4)مو ت کا ایک وقت مقرر ہے اس کا وقت آنے پر ہر انسا ن دنیا سے رخصت ہو جا ئے گا جدید طب کے مطا بق متعد ی امرا ض سے وہی متا ثر ہو تا ہے جس کے اندر بیما ر ی قبو ل کر نے کی صلا حیت ہو تی ہے اگر بیما ر ی مقدر میں ہے تو وہ آکر رہے گی اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بچے کا علا ج کرا یا جا ئے بچی کو حفا ظتی ادویا ت دی جا ئیں اور صلہ رحمی کے پیش نظر سنت نکا ح بر وقت ادا کر دی جا ئے اللہ تعا لیٰ ہما ر ے عقا ئد و اعما ل کو محفو ظ رکھے اور اچھے اخلا ق کا مظاہرہ کر نے کی تو فیق دے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب