السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمدمنور بن ذکی احمد ریا ض سعود یہ سے دریا فت کر تے ہیں کہ ایک سلفی العقیدہ شخص اپنی عا م زند گی میں سیا ہ لبا س پہن سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز بتا ئیں کہ عید کی نما ز مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے جبکہ کو ئی مستقل عیدگا ہ نہ ہو کیا نماز عید کا خطبہ منبر پر دیا جا سکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)سیاہ لبا س کی مما نعت کے متعلق کو ئی صحیح حدیث مر وی نہیں ہے بلکہ روا یا ت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د سیا ہ لبا س زیب تن فر ما یا چنانچہ حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیا ن ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے اون کا ایک سیا ہ جبہ تیا ر کیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا ۔(ابو داؤد :کتا ب اللبا س )
بعض روا یا ت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ما تی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا تو آپ کا سفید رنگ اور جبہ کا سیاہ رنگ ایک عجیب سما ں پیدا کر رہا تھا کبھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید مکھڑے کو دیکھتی اور کبھی لبا س کی سیا ہ لنگت کو دیکھتی پھر پسینہ کی وجہ سے اس میں نا گوا ر ہوا آنے لگی تو آپ نے اسے اتا ر دیا ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خا لد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خا لد کو خو د اپنے دست مبار ک سے سیا ہ چا در پہنا ئی پھر آپ نے خو د ہہی اس کی تحسین فر مائی ۔(صحیح بخا ری :کتا ب اللبا س )
امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر یو ں عنوا ن قا ئم کیا ہے با ب ال خمیصہ السوداء "سیا ہ چا در پہننے کا بیا ن اس سے حضرت امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کے میلا ن کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کے جوا ز کے قا ئل ہیں البتہ اظہا ر غم کے لیے سیا ہ لبا س نہیں پہنا چا ہیے کیوں کہ ہما ر ا معا شرہ میں ایک مخصوص گرو ہ کے نزدیک سیا ہ لبا س ما تمی لبا س ہے ۔
(2)نما ز عید کھلے میدا ن میں پڑھنا مسنون ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا ءرا شدین رضوان اللہ عنہم اجمعین نما ز عید کھلے میدا ن میں پڑھتے تھے حدیث میں ہے کہ کا النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج یو م الفطر والاضحیٰ الی المصلیٰ ۔(بخا ری )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن (نماز کی ادائیگی کے لیے ) عید گا ہ مد ینہ کی آبا دی سے با ہر ایک جنگل میں وا قع تھی اگر کوئی عذر شرعی مثلاً: با ر ش آندھی یا زیا دہ سر دی ہو تو مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن با ر ش ہو گئی تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نما ز عید مسجد میں پڑھا ئی اگر چہ اس حدیث کی سند کمزور ہے جیسا کہ حا فظہ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اتلخیص الحبیر ص:83/2)
تا ہم مجبو ر ی کے وقت مسجد میں نماز عید ادا کی جا سکتی ہے ہے جب اہل مسجد مستقل عید گا ہ بنا نے کی پو زیشن میں میں نہ ہوں تو مسجد میں نما ز ادا کر نے میں کو ئی حر ج نہیں عا م حا لا ت میں نما ز عید آبا دی سے با ہر کسی پا ر ک یا میدا ن میں ادا کر نی چا ہیے کیوں کہ یہ شو کت اسلا م کا مظہر اور مسلما نو ں کے با ہمی اتحا د اتفا ق کی علا مت ہے ایسا کر نا رحمت الہیٰ کے نزول کا با عث اور خیرو بر کت کے حصو ل کا ذر یعہ ہو گا شا ہ جیلا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عید کی نما ز آبا دی سے با ہر کھلے میدا ن میں پڑھنا چا ہیے مسجد میں عذ ر شر عی عید پڑھنا بہتر نہیں ہے ۔(غنیۃ الطا لبین )
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا ئے را شدین رضوان اللہ عنہم اجمعین نما ز عید کا خطبہ منبر کے بغیر ار شا د فر ما تے تھے امام بخا ر ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوا ن بایں الفا ظ قا ئم کیا ہے با ب الخروج الی المصلی بغیر منبر عید گا ہ منبر کے بغیر جا نے کا بیا ن روا یا ت میں ہے کہ نما ز سے فرا غت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لو گو ں کی طرف منہ کیا اور خطبہ کے لیے اپنی جا ئے نما ز مین کھڑے ہو ئے (ابن ماجہ ) وہیں اپنے پا ؤں پر کھڑے کھڑے خطبہ ارشا د فر ما یا ( صحیح ابن خزیمہ ) ان روا یا ت کو بیا ن کر نے کے بعد حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ہذا مشعر با نہ لم یکن با لمصلیٰ فی زما نہ منبر ۔(صحیح البا ری : 579/2)
یہ روا یا ت اس با ت کی دلیل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں عید کے مو قع پر منبر نہیں ہو تا تھا اگر چہ ایک روا یت میں صرا حت ہے کہ جب آپ خطبہ سے فا ر غ ہو ئے تو منبر سے اتر ے (ابو داؤد : ابو اب الضحا یا )
لیکن یہ روا یت ضعیف ہو نے کی وجہ سے ناقا بل اعتبا ر ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی مطلب کا سما ع حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثا بت نہیں ہے صحیح روا یا ت میں میں صرف "نز ل " کے الفا ظ ہیں محدثین نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ خطبہ سے فرا غت کے بعد مردوں کی جگہ کی طرف منتقل ہو ئے ۔(الفتح الر با نی :ص148/2)
مروان کے دور میں خطبہ عید کے لیے عیدگا ہ میں منبر لے جا نے کا آغاز ہو ا چنا نچہ روا یا ت میں ہے "اخرج مروا ن المنبر فی عید و لم یکن یخرج بہ فی یو م عید "(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ )
یعنی مروا ن سے پہلے عید گا ہ میں منبر لے جا نے کا روا ج نہیں تھا :"اس پر حا ضر ین میں سے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کی مو جو د گی میں با یں الفا ظ اعتراض کیا یا مروا ن خا لفت السنہ اخرجت المنبر یو م عید ولم یکن یخرج بہ فی یوم عید (مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ )
اے مروا ن ! تو نے عید گا ہ میں منبر لے جا کر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے اس سے قبل منبر لے جا نے کا روا ج نہ تھا بعض روا یا ت سے پتہ چلتا ہے کہ اعترا ض کر نے وا لے حضرت ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسعود انصا ری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے بہر حا ل عید گا ہ میں منبر لے جا نا خلا ف سنت ہے اس سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب