سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(461) مریض کو خون کا عطیہ کرنا

  • 11735
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1102

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملتان سےمحمدشفیع دریافت کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت کسی مریض کو خون دینا شرعاًکیسا ہے کیا کوئی غیر محرم کسی عورت کو خون دے سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مر یض کو بوقت ضرورت خو ن دینا  دور  حا ضر  کا ایک جدید  مسئلہ ہے جس کی مثا ل  قرون  اولیٰ  میں نہیں  ملتی  ویسے  تو انسا ن کا   خو ن حرا م ہے  اور یہ حر مت  اس کے نجس  یا پلید  ہو نے  کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی حرمت  اس کے احترا م  کے پیش نظر  ہے انسا نی خو ن پلید  نہیں ہے  چو نکہ  اللہ تعا لٰی نے ہما ر ے لیے  دین  اسلا م کو با ر  گرا ں  نہیں  بنا یا  بلکہ  وہ ہمارے سا تھ  آسا نی  اور سہولت  کا ارادہ  رکھے ہو ئے ہیں  نیز ضرورت  کے وقت حرا م چیز  بھی مبا ح  ہو جا تی ہے اسلیے انسا نی  خو ن  دوسرے  کے لیے استعمال  کیا جا سکتا  ہے لیکن اس کے لیے  مندر جہ  ذیل شر ائط  کو ملحوظ  رکھنا  ہو گا  ۔

(1)کو ئی ما ہر دا کٹر  خو ن کے استعمال  کو نا گز یر  قرار  دے دے ۔

(2)خو ن کے علا وہ کو ئی دوسری  متبا دل  چیز میسر  نہ ہو جس  سے مر یض  کی جا ن بچ  سکے یا وہ صحت  کے قا بل  ہو سکے ۔

(3)محض قو ت یا جسما نی حسن میں اضا فہ  کا  ارادہ  نہ ہو  کیوں  کہ یہ ایک فیشن  ہے  ضرورت  نہیں ۔

(4)خو ن لینا دینا  کسی  کا روبا ری غر ض  سے نہ ہو ۔اس مقا م پر ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ حرا م میں شفا  نہیں ہو تی  جیسا کہ حضرت  عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ  نے حرا م  اشیا ء  میں  تمہا رے  لیے شفا نہیں رکھی ہے ۔ (صحیح بخا ری :کتا ب الاشر بہ )

اس روایت  کو مسند  ابی  یعلی میں مر فو عاً بیان کیا گیا ہے  اور ابن حبا ن  نے اسے  صحیح قرار دیا  ہے نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فر ما ن  ہے کہ حرا م  اشیا ء  سے  دوا نہ  کرو ۔ (سنن  ابی داؤد : کتا ب  الطلب )

ان روا یت کا تقا ضا ہے کہ حرا م  اشیا ء  مین شفا  نہیں  پھر  انہیں  بطو ر علا ج  استعما ل  کر نا چہ معنی  دا رد ؟ اس کا جوا ب  یہ ہے کہ خو ن  کا استعما ل بطو ر دوایا  علا ج  نہیں بلکہ  خو ن  اس لیے  استعمال  کیا جا تا ہے  تا کہ مر یض  علاج کے قا بل ہوجا ئے اور خو ن کی گر دش  از سر  نو جا ر ی  ہو نے سے دوا کے مؤثر  ہو نے کو ممکن  بنا یا  جا سکے  کیوں  کہ خو ن  کے نہ  ہو نے  کی وجہ  سے ادویا ت  کا استعمال  بے سو دہو تا ہے  ڈا کٹر  حضرات  سے را بطہ  کر نے سے یہی  معلوم ہو ا  کہ مر یض  کو جو خو ن دیا  جا تا ہے  وہ بطو ر  دوا  نہیں  بلکہ  اس کے ذریعے  مر یض  کو  علا ج  کے قا بل  بنا یا جا تا ہے لہذا  خو ن  کے استعما ل  میں کو ئی  قبا حت نہیں اگر  کسی  محر م کا گرو پ  مر یض  کے خو ن  سے موا فقت  نہ رکھتا  ہو تو  غیر  محر م  کا خو ن  عورت کو دیا جا سکتا  ہے کیوں  کہ ایسا کر نا مجبو ری  کے پیش نظر ہے چنا نچہ  ایک اصول ہے کہ ضرورت کے پیش نظر  حرا م  چیز مبا ح  ہو جا تی ہے ،(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:465

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ