سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) بھینس کی حلت کا حکم

  • 11731
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 957

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کما لیہ  سے عبد  العلیم  لکھتے ہیں  کہ بھینس  کا ذکر قرآن  وحدیث  میں نہیں  ہے اس کے حلال  ہو نے  کا فیصلہ  کیسے  کیا جا ئے  گا وضا حت  کر یں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام جا نو روں  کے نا م بنا م  حلت  و حر مت  کا ذکر  قرآن و حدیث  میں نہیں  ہے شر یعت  میں  حر مت  کے متعلق  چند  ایک  اصول  بتا  دئیے  گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :

(1)وہ تمام جا نو ر  حرا م ہیں  جن کی حر مت  کے متعلق  صرا حت  آچکی  ہے جیسا  کہ گھر  یلو   گد ھے  ہیں ۔

(2)جو جا نو ر کچلی  والے  ہیں وہ بھی حرا م ہیں جیسا کہ  چیتا  اور بھیڑیا وغیرہ

(3) جو جا نو ر  پنجے  سے شکا ر  کر تے ہیں  اور پنجے  سے ہی پکڑ  کر کھا تے ہیں  جیسا کہ با ز اور  کو ا وغیرہ

(4) جن جا نو روں  کو ما ر نے  کا حکم  دیا گیا  ہے جیسا  کہ  سا نپ اور  دیگر  موذی  جا نو ر ۔

(5) جن  جا نو روںکو ما ر نے سے منع کیا گیا ہے  جیسا کہ مینڈک وغیرہ ۔  ان کے علا وہ  تمام  جا نو ر حلا ل ہیں بھینس  بھی انہی حلال جا نو روں  میں شامل ہے ویسے بھی بے شمار  ایسے پر ندے  ہیں جن  کا ذکرصرا حت  کے ساتھ  نہیں ہوا  کہ  یہ حلال  ہیں  لیکن اس کے  با و جو د  ہم  انہیں حلال سمجھتے  ہیں  مثلاً: مر غا بی  اور تیتر وغیرہ  لہذا یہ اصول  غلط  ہے کہ  جس کی حلت  یا حرمت  کا ذکر  صراحت  کے ساتھ  قرآن  یا حدیث  میں آجا ئے  وہی  حلا ل  یا حرا م  ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:462

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ