السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد علی خریداری نمبر 53983ہی سوال کر تے ہیں کہ ہم لیڈ یز ٹیلرنگ کا کا م کر تے ہیں ہما ر ے ہا ں مختلف قسم کی عورتیں آتی ہیں کچھ عورتیں نا پ کے لیے اپنے کپڑے لے کر آتی ہیں اور کچھ عورتیں کپڑوں کی بجا ئے اپنے جسم کا نا پ دیتی ہیں ہمیں کسی نے بتا یا ہے کہ عورت ٖغیر مر د کو جسم کا نا پ نہیں دے سکتی اور نہ ہی غیر مر د عورتوں کے کپڑے دیکھ سکتا ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ کا م حرا م ہے مسئلہ کی وضاحت فر ما دیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لبا س انسا نی فطرت کا ایک اہم مطا لبہ ہے قرآن کر یم نے اس کی غر ض و غا یت با یں الفا ظ بیان کی ہے :' کہ تمہا ر ے جسم کے قا بل شر م حصے جکو ڈ ھا نکتا ہے اور تمہا ر ے لیے جسم کی حفا ظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہے ۔(7/الاعراف :26)
یعنی لبا س انسا ن کی ستر پو شی جسم کی حفا ظت اور اس کے لیے با عث زینت ہے آیت کر یمہ سے معلو م ہو تا ہے کہ انسان کے لیے لبا س اخلاقی ضرورت ستر پو شی اس کی طبعی ضرورت حفا ظت و زینت سے مقدم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ لبا س کا بنیا د ی فا ئدہ یہ ہے کہ وہ ستر پو شی کا فا ئدہ دے اس کے بر عکس اگر لبا س اتنا با ر یک ہے کہ اس میں جسم کی جھلک نما یاں ہو یا سلا ئی اتنی چست ہے کہ جسم کے پو شیدہ حصو ں کے خدو خا ل نما یاں ہو ں اس قسم کے لبا س کو ستر پو ش نہیں کہا جا سکتا اور ایک ایما ن دار درزی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے ایسے تنگ لبا س تیا ر کر نے سے پر ہیز کر ے جو سا تر ہو نے کے بجائے ان کی عریا نی کا با عث ہو ں اس قسم کے لبا س کی اجر ت جا ئز نہیں ہے خو اہ عورتیں خو د نا پ کا کپڑا بھیج دیں اسی طرح عورتوں کو بھی چا ہیے کہ وہ ہمیشہ سا تر لبا س زیب تن کر یں انتہا ئی بر یک اور چست لبا س سے اجتنا ب کر یں مغر ب اور مغر ب زد ہ لو گو ں کی تحریک عر یاں کو نا کا م و نا مرا د بنا نے کے لیے تمام مسلمان عورتیں اپنے سا تر لبا س اور شر عی حجا ب کی پا بندی اختیا ر کر یں اسلا می لبا س تیا ر کر نے کی اجر ت لی جا سکتی ہے لیکن عورتوں کے جسم کی خو د پیما ئش نہ لے بلکہ یہ کا م اپنی عز یز ہ بہن بیٹی وا لدہ بیو ی وغیرہ سے لیا جا سکتا ہے عورت کے جسم کو بلا و جہ ہا تھ لگا نا حرا م ہے با لخصوص جسم کے ان حصوں کو چھو ٹا جو اعضا ئے صنفی کہلا تے ہیں اور جن سے شہو انی جذبات ابھر نے کا اند یشہ ہے اس کا م کے لیے مند ر جہ ذیل با تو ں کا خیا ل رکھنا ہو گا :
(1)مردوں اور بچوں کے لبا س تیا ر کیے جا ئیں ۔
(2) عورتوں کے سا تر لبا س تیا ر کیے جا سکتے ہیں بشر طیکہ ان کی پیما ئش خو د لی جا ئے بلکہ ان کے کپڑوں کے نا پ سے کا م چلا یا جا ئے ۔
(3)بہتر ہے کہ خا تون کسی ٹیلر کی خدمت حاصل کر یں اور شر عی حدود میں رہتے ہو ئے ان سے لبا س تیا ر کرا ئیں ۔ مختصر یہ ہے کہ لبا س تیا ر کرتے وقت مذکو ر ہ با لا قرآنی ہدا یت کو ضرور مد نظر رکھا جا ئے کیو ں کہ لبا س تو تقو ی کا ہی بہتر ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب