السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ محمد یونس میر پو ر آزاد کشمیر سے پو چھتے ہیں عقیقہ کیا جا سکتا ہے لڑکے کے لیے عموماً دو جا نو روں کی شر ط ہے کیا ایک جا نو ر بھی ذبح کیا جا سکتا ہے نیز کیا عقیقہ کے جا نو ر میں قر با نی کی شر ائط ملحو ظ رکھنا ضروری ہیں اس کے علا وہ ایک اور مسئلہ ہما ر ے لیے با عث نزاع بنا ہو ا کہ کچھ لو گ دن معین کیے بغیر میت کی طرف سے کھا نا کھلا نے کا اہتما م کر تے ہیں اور تمام عزیز و اقا ر ب کو اس دعوت میں مد عو کر تے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ثو اب ہما ر ے فو ت شدہ عز یز کو ملے گا اس کے متعلق شر عی مو قف بیا ن کر یں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقیقہ اس جا نو ر کو کہتے ہیں کہ جو بچے کی پید ائش کے سا تو یں دن ذبح کیا جا تا ہے تما م ائمہ و محد ثین کرا م اس کی مشروعیت کے قا ئل ہیں صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے عدم مشروعیت منقول ہے کیو ں کہ وہ اسے دور جا ہلیت کی یا د گا ر قرار دیتے ہیں صا حب استطا عت کو بچے کی پیدا ئش کے سا تو یں دن عقیقہ کر نا ضروری ہے فر ما ن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : (1)بچے کی پیدا ئش پر عقیقہ ہے اس کی طرف سے جا نو ر ذبح کرو اس کی حجا مت بنوا ؤ ۔(جا مع تر مذی )
حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکر یاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطو ر عقیقہ ذبح کر یں ۔(مسند امام احمد )
(3)سر کے با ل منڈوا ئے جا ئیں اور اس کا نا م رکھا جا ئے ۔(ابو داؤد ابن ما جہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی یہی ثا بت ہو تا ہے کہ حضرت بر ید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نوا سوں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیقہ کیا تھا (نسا ئی ) ایک روا یت میں ہے کہ آپ نے دو دو مینڈھے ذبح کیے تھے اگر چہ بعض روایت میں ایک ایک مینڈ ھا ذبح کر نے کا بھی ذکر ہے لیکن علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام روایات کو مر جو ح قرار دیا ہے۔(ارواء الغلیل ص 384/4)
حا فظہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مختلف دلا ئل سے اس با ت کو راجح قرار دیا ہے کہ بچے کی طرف سے دو اور بچی کی طرف سے ایک جا نو ر ذبح کیا جائے ۔(زادا لمعا د )
اگر عدم استطا عت کی وجہ سے سا تو یں دن عقیقیہ نہ ہو سکے تو جب بھی اللہ ہمت اور مو قع دے عقیقہ کیا جا سکتا ہے چو د ھو یں اور اکیسویں دن عقیقہ کر نے کی روایا ت صحیح نہیں ہیں ۔عقیقہ کا جا نو ر نما یاں اور کھلے عیو ب سے پا ک ہو نا چا ہیے البتہ قر با نی کی شر ائط اس میں نہیں ہیں قربا نی کے احکا م اس سے الگ ہیں نما یا ں فر ق یہ ہے کہ قر با نی میں ایک ہی جا نو ر تمام اہل خا نہ کی طرف سے کا فی ہو جا تا ہے جبکہ عقیقہ میں ایسا نہیں ہو تا میت کے ایصا ل ثو اب کے لیے دعوت کا اہتما م کر نا پھر اس مین خو یش وا قا رب کو بلا نا قرو ن اولیٰ میں اس کا ثبو ت نہیں ملتا ہے خوا ہ کسی دن کی تعین ہو یا پہلے سے کو ئی دن مقر ر نہ کیا جا ئے میت کی طرف سے صدقہ و خیرا ت کر نا چا ہیے یا پھر غربا و مسا کین کے کھا نے کا اہتما م کیا جا ئے سلف صا لحین نیکی کے کا مو ں میں بہت حر یص تھے ان سے قسم کی دعوتیں کر نا ثا بت نہیں ہے جس میں صرف برادری کو مد عو کیا جا ئے لہذا اس سے اجتنا ب کر نا چا ہیے (واللہ اعلم با لصوا ب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب