السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حیلہ اسقاط اور اس میں قرآن پاک کو گھمانا جو ہمارے علاقوں میں مروج ہے ، اس کی شریعت مطہرہ میں کوئی بنیاد ہے ؟ یا اسے منافقین اور مبتدعین نے مسلمانوں کو صحیح دین سے پھیرنے کے لیے گھڑا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام ہمارا ایک عظیم دین ہے اس کی رات بھی دن کی مانند روشن ہے اس میں بلا ثبوت باتوں کی کوئی گنجائش نہیں اور اس میں کسی مسئلے کی بنیاد دلیل شرعی کے علاوہ کسی فقیر کے قول یا اس کی کتاب پر مبنی نہیں ہے۔ جب دین کا معاملہ یہ ہے تو مسلمان کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ دلیل کی تابعداری کرے نہ کہ کہی سنی یا متاخرین کی باطل اور من گھڑت باتوں پر کان دھرے ہم کہتے ہیں فدیہ تو اس شخص کیلئے مشروع ہے جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے رہتے ہوں۔ فوت شدہ کی نماز وغیرہ کا کوئی فدیہ مشروع نہیں یہ تو عام معروف مسئلہ ہے اس میں دقیق مطالعہ کی ضرورت نہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ کو فقہاء سمجھتے ہیں حالانکہ وہ فقہ شرعی سے کوسوں دور ہیں ۔ انہوں نے اپنی طرف سے نیک نیتی سے دین بنایا ہے لیکن وہ اس میں غلطی پر ہیں۔ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جسے انہوں نے خود بنایا ہے ہم اس کے بارے میں اہل تحقیق کے کچھ اقوال ذکر کریں گے۔ ان کے مصادر تک مراجعہ آپ پر لازم ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی "فتاوی رشیدیہ" (ص: 26) میں کہتے ہیں : "یہ مروج اسقاط لغو محض ہے اس حیلہ ضائعہ میں کوئی خیر نہیں اور خیر القرون میں ان کا کوئی ذکر اور نام و نشان نہیں۔"
مولانا رشید احمد لدھیانوی احسن الفتاوی (1/348) میں کہتے ہیں ، مروج طریقہ حرام اور بدعت ہے اس کا ذکر کتاب و سنت اور فقہ کی کتب صحیحہ میں نہیں اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ٣﴾...سورة المائده
"آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔"
اور ارشاد ہے :
﴿قَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّـهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ ٢١﴾...سورة الاحزاب
"یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔"
ہر وہ کام جسے رسول اللہ ﷺ نے نہ کیا ہو اور کوئی شخص اسے ثواب کا کام سمجھے تو اس کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے اور ان آیات کو وہ غلط خیال کرتا ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور یہ حیلہ لوگوں کو معصیت کی جرات دلاتی ہے جو مخفی نہیں۔
پھر رد المختار (1/492) کی عبارت ذکر کی ہے اور صراحتہ اسے محرمات میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے : "ولی پر حیلہ اسقاط کا کرنا واجب نہیں اگرچہ میت نے اس کی وصیت ہو ۔ میت پر اسی قدر وصیت کرنی واجب ہے جس سے کے ذمے حقوق اسا ہوتے ہوں بشرطیکہ ثلث ترکہ اس کا متحمل ہو، اگر وصیت اس کے ذمہ حقوق سے کم کی ، اور حیلہ اسقاط کرنے کا حکم بھی دیا اور ثلث کا باقی وارثوں کے لیے چھوڑ دیا ، یا ان کے علاوہ کسی پر صدقہ کیا تو وہ اس کے ذمے واجب الادا حقوق کے ترک کرنے پر گنہگار ہوگا اور اس سے ہمارے زمانے کی وصیتوں کا حال واضح ہوا کہ کسی شخص پر بہت سی نمازوں کا کفارہ ، زکاتیں ، قربانیاں ، قسموں کے کفارے وغیرہ رہتے ہوتے ہیں اور وہ ان کے لیے تھوڑی سی رقم کی وصیت کرتا ہے اور وصیت کا اکثر حصہ ختم قرآن اور ذکر کی مجلسوں کیلئے کر جاتا ہے جس کیلئے وصیت کرنا ہمارے علماء نے صراحۃ غیر صحیح کہا ہے۔"
میں کہتا ہوں : کہ کتاب و سنت اور آثار صحابہ سے نمازوں قربانیوں وغیرہ کا فدیہ ثابت نہیں۔
وهبة الزحيلي الفقه الاسلامي (2/135) میں کہتے ہیں : "لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اس جیسے حیلے غیر مقبول ہیں کیونکہ نماز بدنی عبادت ہے جو خالی خولی ارادوں کھوکھلے طریقوں سے ساقط نہیں ہو سکتی۔"
مولانا سرفراز خان کی المنههاج الواضح (ص: 283) میں اس حیلے اور اس میں دور قرآن پاک کا عمدہ رد ہے ان کے کہنے کا حاصل یہ ہے "بدعی حیلہ اور بدعی دور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا نہ ہی صحابہ ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور میں اور نہ اس کا مذاہب اربعہ کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے بلکہ بعض اہل بدعت نے روایت خود گھڑی جس کے الفاظ رکاکت کا اندازہ عربی زبان سے ممارست رکھنے والا بخوبی کر سکتا ہے اور اسی سند موضوع اور اس کا کوئی صحیح مصدر یا حوالہ نہیں۔"
اور وہ اس کے یہ حوالہ دیتے ہیں کہ فتاوی سمرقندیہ میں ہے ، "ہمیں حدیث سنائی عباس بن سفیان نے (مجہول ہے اس کا کوئی ذکر نہیں) ابن علیہ سے (سند منقطع ہے) وہ ابن عون سے وہ محمد سے وہ عبد اللہ سے وہ کہتے ہیں کہ عمر ؓ نے کہا "اے مؤمنو ! قرآن کو مردوں کی نجاۃ کا ذریعہ بناو ، حلقہ بنا کر بیٹھو اور کہو اے اللہ ! قرآن مجید کی حرمت سے اس مردے کی بخشیش فرما اور باری باری (قرآن کو) اپنے ہاتھوں میں لیتے جاو۔ " عمر ؓ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں یہ عمل کیا تھا ۔ اسی طرح اپنے زمانے میں ایک عورت کیلئے جس کا لقب حبیۃ تھا جو عربد کی بیٹی اور قلاب کی بیوی تھی ومالی سے عم تک پر مشتمل جزء قرآن پر اسی طرح عمل کیا تھا اور عثمان ؓ کی خلافت میں مروان کے انکار پر عناد کے سبب پھیلا سمرقندی کہتے ہیں کہ پھر یہ حیلہ اسقاط اور دوران قرآن ہارون رشید کی خلافت میں کسی کے انکار کے بغیر مشہور ہوا تھا اس کا اصل عمر ؓ سے ثابت ہے اگرچہ یہ حدیث کی مشہور کتابوں میں مشہور نہ ہو سکا لیکن تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر قوی سند سے آتا ہے جیسے کہ مورخ صاحب فتوح کہتا ہے خبر دی ہمیں ابو عاصم نے اب جریج سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے ابو سلمہ انہوں نے ابو موسی سے وہ کہتے ہیں کہ عمر ؓ نے یہ فعل ایک عورت اور ایک انصار مرد کے لیے کیا تھا۔ جس کا نام ہمیں یاد نہیں۔ اور اسی سند سے ثابت ہے ہمیں خبر دی سعد نے ایوب سے انہوں نے جمیع سے انہوں عبد الرحمن بن ابی بکر سے کہ دوران قرآن عمر ؓ وجود میں تھے اور قرآن مومنوں کے لیے زندگی میں شفاعت کرنے والا ہے اور مرنے کے بعد بھی۔ انتہی۔"
تو اس کے جواب میں کہتا ہوں:
اول : یہ حوالہ غلط ہے ، فتاوی سمرقندیہ میں یہ عبارت نہیں ہے جیسے شیخ مذکور نے کہا ہے ۔
دوم: اس کی سند باطل ہے کیونکہ عباس مجہول ہے اور عباس اور ابن علیہ کے درمیان انقطاع ہے۔
سوم: الفتوح کا مولف الواقدی جھوٹ و باطل کیلئے مشہور ہے۔
چہارم: اس میں ابن جریج زہری سے روایت کرتے ہیں وہ مدلس ہے اور زہری سے اس کی روایت کچھ بھی نہیں جیسے کہ ابن معین نے کہا ہے اور وہ مدلس ہوتے ہوئے عن کے ساتھ روایت کر رہا ہے۔
پنجم: ایوب ، سعید ، جمیع سب مجہول ہیں۔
جیسے کہ الشیخ محمد طاہر کی النشاط (ص: 9) میں ہے : "ان الفاظ کی رکاکت پر غور کرو "دوران اوجد في الكتب من التواريخ ؛ وشاع فعله في زمان خلافة عثمان بانكار مروان بعناد، ثم اشتهر في خلافة هارون الرشيد من غير انكار نكير دوران القرآن لحلية الاسقاط" تو کیا یہ کسی منافق اور غالی کی اختراع معلوم ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو صحیح دین سے پھیر دے۔"
اور فتاوی دار العلوم دیوبند (7/82)، (6/50) میں ہے جس کا معنی یہ ہے کہ حیلہ اسقاط شریعت مطہرہ کے خلاف ہے اور اس کی وصیت کرنی حرام ہے۔
اور مولانا انور شاہ کشمیری فیض الباری (1/302) میں کہتے ہیں، "اور جو حیلہ فقہاء نے بیان کیا ہے باوجود اس کے کہ وہ اہل بدعت کے حیلے کے خلاف جیسے اہل تدریب و اہل تدبر سے یہ مخفی نہیں کہ وہ شارع سے ثابت نہیں نہ سلف سے اور نہ ہی علماء میں سے کسی سے اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا نام و نشان تھا ، بلکہ اکثر علماء نے اس کی تردید فرمائی ہے۔"
مراجعہ کریں التبیان للشیخ عبد السلام حفظہ اللہ (ص: 196) دیکھیں فتاوی دیوبند از مفتی محمد شفیع (1/122) ، مراقي الفلاح (ص: 102) مجموعۃ الرسائل للشامی : (1/208 - 210)
اور اب ہم شیخ محمد طاہر مرحوم کی کتاب "النشاط" سے اس حیلے کی کراھت کی علتیں ذکر کرتے ہیں۔
اول : اگر یہ طریقہ پسندیدہ طریقہ ہوتا شارع اس کا حکم دیتے اور عدم نقل کراہت پر دال ہے جیسے کہ فقہاء نے تصریح کی ہے۔
دوم: اس حیلہ میں غیر ملتزم کا لازم کرنا ہے کیونکہ وہ اسے ترک نہیں کرتے اور یہ بدعت ہے جیسے کہ بزازیہ میں ہے لازم کرنا اس چیز کا جو لازم نہ ہو بدعت ہے۔
سوم: اگر اسے مستحب فرض کر لیا جائے تو اس میں اس پر اصرار ہے اور مستحب پر اصرار کے منکر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ فقہاءفرماتے ہیں جو مندوب پر اصرار کرے اور اسے ضروری بنالے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو یہ شیطان کا بہکاوا ہے تو اس شخص کا اندازہ خود لگا لیں جو بدعت اور منکر پر اصرار کرتا ہے۔
جیسے کہ مرقاۃ (1/40) اور العنایہ اور الطیمی میں ہے :
"اور اس (حیلہ اسقاط) کو تجہیز و تکفین کے اعمال میں ایک مستقل عمل قرار دیا ہے ۔"
چہارم : اس حیلے میں دھوکہ ہے کیونکہ وہ فقراء کو دے کر واپس لے لیتے ہیں تو یہ تملیک نہیں مکروہ دھوکہ ہوا۔
پنجم: اکثر ورثاء میں ایتام ہوتے ہیں یا پھر غائبین اور یتیموں اور غائبین کا مال تقسیم کرنا حرام ہے۔
ششم: اگر ورثاء بالغ اور حاضر ہوں تو وہ خوشدلی سے خرچ نہیں کرتے بلکہ عار اور مجبوری کی خاطر کرتے ہیں تو یہ کیسے فدیہ اور کفارہ بن سکتا ہے۔
ہفتم: اگر یہ روزے کا فدیہ ہے تو از روئے شرح نصف صاع گندم یا ایک صاع جو چاہیئے اور پورا ایک فقیر کو دینا چاہیئے ، اس دھوکہ سے نہیں دینا چاہیئے۔ اور یہ تو فقراء کو فدے کا تہائی یا چوتھائی ، طلبہ کو آٹھواں دسواں اور پگڑی پوش اغنیاء کو کئی چند دیتے ہیں۔ حالانکہ فدیہ اغنیاء پر حرام ہے جیسے کہ شامی نے مجموعۃ الرسائل (ص: 194) میں کہا ہے ۔
ہشتم: وہ نقدی جسے یہ گھماتے ہیں اور پہلا دوسرے کو دیتا ہے تو یہ دوسری کی ملکیت بن جاتا ہے پھر یہ پرائی ملکیت اس کی رضا کے بغیر تقسیم کرتے ہیں اور اس کے ظلم و جبر اور پراٗے مال میں تصرف کے ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ دوسرے نے جب پہلے سے ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا تو پہلے کا ہبہ کے بعد وہ دوسرے کی ملکیت بن گیا اور میت کا نہ رہا۔
نہم: یہ اصحاب حیلہ جو اپنے اس قابل مذمت حلقہ میں مال جزیل ہبہ کرتے ہیں خود بڑے بخیل ہوتے ہیں انفاق تو بڑی بات ہے زکوۃ تک ادا نہیں کرتے اور اگر کوئی سائل ان سے مانگ لے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر دھتکار ریتے ہیں تو کیسے کثیر مال اس حلقے میں خرچ کرنے والے ہوگئے یہ صرف دھوکہ ہے۔
دہم: یہ حیلہ بہت سی بدعات و منکرات اور قبائح و فضائح پر مشتمل ہے اگر حقیقی مسلمان ان پر غور کرے تو بغیر دلیل کے انہیں رد کردے ، اس کے علاوہ یہ حیلہ ہبہ میں رجوع پر مشتمل ہے جس کی مثال نبی ﷺ نے کتے سے دی ہے ، اور اسی طرح یہ مال کی حرص و محبت علماء اور قبر و آخرت کو بھلا دینے اور اس جیسی دیگر قباحتوں پر مشتمل ہے تو یہ سب اس حیلہ شنیعہ کے حرام ہونے کی علتیں ہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب