سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(425) مخنث کا حج کرنے کا طریقہ

  • 11699
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1244

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں پیدا ئشی طو ر پر ایک ہجڑا ہو ں  میر ی  شکل و صورت  چا ل ڈھال  اور جسما نی  سا خت  و پر  واخت  انتہا ئی  طو ر پر  لڑکیو ں  سے مشا بہہ  ہے میرا نا م  لڑکیو ں وا لا ہے اور میں لبا س  بھی لڑکیو ں والا پہنتا ہو ں میرے سر کے با ل بھی لڑکیو ں کی طرح لمبے اور خو ب صورت  ہیں  ایک آوا ز ہے جو  لڑکیو ں  سے قدر ے بھا ر ی  ہے مجھے  دیکھنے  والا لڑکی  ہی خیا ل کر تا  ہے میر ے  سا تھ یہ حا د ثہ  ہو کہ  میرا گرو عدا لتی کا ر وا ئی کے ذر یعے  مجھے  میر ے  والد ین  سے چھین  کر لے  آیا تھا  میں بچپن  سے اب  تک  گرو  کی صحبت  میں  اور اس کی زیر  تر بیت  رہا ہو ں اس لیے نا چ گا نے کا پیشہ اپنانا فطر تی با ت تھی  تا ہم میں شرو ع ہی سے اس کا روبا ر کو نفر ت  کی نگا ہ سے دیکھتا تھا  اب جب کہ میرا  گرو  مر چکا ہے اور میں آزاد ہو ں  میر ی عمر بیتس سا ل کے قریب ہے  لیکن میں اپنے گرو کے مکا ن میں دوسرے ہیجڑے سا تھیو ں  کے سا تھ رہتا ہو ں  مجھے اس پیشہ سے جنون کی حد تک نفر ت ہو چکی ہے  میں نے  عزم کر لیا ہے  کہ اس پیشہ اور ہیجڑو ں  سے کنا رہ  کش  ہو جا ؤ ں اور اپنی  تو بہ  کا آغا ز  حج  بیت  اللہ  کی سعا دت  سے کر نا  چا ہتا  ہو ں  میر ی  الجھن  یہ ہے  کہ میں  مر دو ں  کی طرح  حج کرو ں یا عورتو ں کی طرح کتا ب و سنت کے مطا بق میر ی الجھن حل کر یں  مجھے  اس با ت  کا علم  ہے کہ  اگر  میں  مر دو ں  کی طرح  حج  کرو ں تو مجھے  احرا م  باندھنا ہو گا  اور مجھے  بدن  کا کچھ حصہ  ننگا  رکھنا ہو گا  اس کے  علا وہ  سر کے  با ل  بھی  منڈاونا ہو ں گے  لیکن  سچی  با ت  ہے کہ میر ے لیے  یہ امر بہت مشکل ہو گا  جس سے مجھے خو ف آتا ہے  بلکہ  تصور کر کے  رو نگتے  کھڑے ہو جا تے ہیں جب کے عورتو ں کی طرح حج کر نے میں   مجھے آسا نی  ہے کیو ں  کہ میں  نے  اب تک  عمرکا تمام حصہ عورتو ں کی  طرح گزا را ہے  اور جنسی  طور  پر مردانہ خو ا ہش  کبھی بھی میرے دل میں نہیں ابھری  بعض  علما ء  سے  دریا فت کر نے سے الجھن  کا شکا ر ہو چکا ہو ں  کہ کیا کرو ں  اور کیا نہ کرو ں  مجھے  کسی نے کہا  ہے کہ  اگر تم  مسئلہ  کا صحیح  حل چا ہتے ہو تو  کسی وہا بی  عا لم  کی طرف رجو ع کر و  اس لیے  میں نے آپ  کی طرف رجو ع کیا  ہے مجھے  جلدی  اس کا جوا ب  دیا  جا ئے ۔(ایک سا ئل  معرفت  محمد  اسلا م  طا ہر  محمدی  لا ہور  کینٹ خریداری  نمبر 1274)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قدر طو یل سوا ل کے با و جو د  بعض  امو ر  دریا فت  طلب  ہیں تا ہم  جوا ب  پیش خد مت ہے اس سلسلہ  میں چند  با تیں  قا بل ملا حظہ  ہیں

(1)گرو کا والدین  سے عدا لتی  کا روا ئی  کے ذریعہ  چھین  کر لے  آنا  انتہا ئی  محل  نظر  ہے کیو ں  کہ ایسا کو ئی قا نو ن  نہیں ہے  جس  کا سہارا  لے کر  عدالتی  کا رو ائی  کے ذریعے  اس مخلو ق  کو اس کے وا لدین  سے زبر دستی  چھینا  چھٹی  کی جا سکے  یقیناً اس میں والدین  کی مر ضی  شا مل ہو گی  جس  کے متعلق  وہ  جو ابدہ ہو گے  ایسے  متعدد واقعا ت  ہما رے  مشا ہدہ  میں ہیں  کہ اس  جنس  کے گرو  حضرا ت  والدین  سے انہیں  لینے  آئے  لیکن  والدین نے انکا ر کر دیا  اور انہیں  دینی مدرسہ میں دا خل  کرایا  دینی  تعلیم  کا یہ اثر  ہواکہ  وہ گا نے  بجا نے  کا دھندہ کر نے  کے بجا ئے  دین اسلا م  کی تبلیغ  واشاعت  کا فریضہ  سر انجا م  دے رہے ہیں ۔

(2)اس کا م  سے صرف  نفرت  ہی کا فی  نہیں  ہو گی  بلکہ فریضہ حج کا انتظا ر  کیے بغیر  فوراً اس سے تو بہ  کی جا ئے  اپنے سا تھو ں  سے الگ  ہو جا نا  چا ہیے  کیو ں  کہ مو ت کا کو ئی پتہ نہیں  کب آجا ئے  اخرو ی  نجا ت  کے لیے  برے  کا م  سے صرف  نفرت  ہی کا فی نہیں بلکہ اسے اللہ  کی با ر گا ہ  میں ندامت کے آنسو  بہا تے  ہو ئے  چھو ڑ دینا  ضروری  ہے پھر  نیک  اعما ل  نما ز روزہ  وغیرہ  سے اس کی تلا فی  کر نا  بھی  لا ز می  ہے اس بنا پر سا ئل  کو ہماری نصیحت  ہے کہ وہ فو راً اس کا م  سے با ز آجا ئے  اور اپنے پیشہ  ساتھیوں  سے کنا رہ  کش  ہو کر اخرو ی  نجا ت کی فکر کر ے ۔

(3)رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد  مبا ر ک  میں یہ جنس  مو جو د  تھی  بعض  کے نا م  بھی ملتے  ہیں کہ  وہ ہیت  ما تع  ابو  ما ر یہ  اور ما بو ر  جیسے  نا مو ں  سے پکارے جا تے  تھے  یہ لو گ  رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے سا تھ شرائع  اسلا م ادا  کر تے تھے  نما ز یں  پڑھتے  جہا د  میں  شر یک  ہو تے  اور دیگرامو ر  خیر  بھی  بجا لا تے تھے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   ان متعلق  پہلے  یہ خیا ل  کر تے تھے  کہ یہ بے ضرر  مخلو ق  ہے آد می  ہو نے کے  با و جو د انہیں  عورتو ں  کے معا ملا ت  میں چندا ں  دلچسپی  نہیں ہے اس لیے آپ ازوج  مطہرا ت  کے پا س  ان کے  آنے  جا نے  میں کو ئی  حر ج  محسو س  نہیں کر تے تھے  لیکن  جب آپ کو پتہ  چلا  کہ انہیں عورتو ں کے معا ملا ت میں  خا صی دلچسپی نہیں  بلکہ  یہ لو گ  نسوا نی   معلو ما ت  بھی رکھتے ہیں  تو آپ  نے انہیں  ازواج مطہرا ت  اور دیگر  مسلما ن  خو اتین  کے ہا ں  آنے جا نے  سے منع  فر ما دیا  بلکہ  انہیں  مدینہ  بدر کر کے  روضہ  خا خ حمراء الاسداور نقیع  کی طرف آبا د ی  سے دو ر بھیج  دیا  تا کہ  دوسرے  لو گ  ان  کے بر ے  اثرا ت  سے محفو ظ رہیں ۔(صحیح بخاری :المغا ری 4324)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتو ں کا حکم دیا کہ انہیں  بے ضرر  خیا ل  کر کے  اپنے  پا س  مت آنے دیں  بلکہ  انہیں  گھرو ں  میں دا خل  ہو نے  سے رو کیں ۔(صحیح بخاری :النکا ح 5235)

(4)واضح رہے  کہ مخنث  بنیا دی طو ر پر مرد  ہو تا ہے لیکن مردیقوت  سے محرو م  ہو نے کی  وجہ  سے عورتو ں  جیسی  چا ل ڈھا ل  اور اداوگفتار  اختیا ر  کیے  ہو تا ہے یہ عا دات  اگر  پیدائشی  نہیں  چھو ڑنا  ہو گا   اگر  پیدا ئشی  نہیں بلکہ  تکلف  کے سا تھ  انہیں  اختیا ر  کیا گیا ہے  تو رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس اختیا ر  پر لعنت  فر ما ئی ہے:" کہ وہ مر د جو عورتو ں جیسی چا ل ڈھا ل   اور وہ عورتیں  جو مردو ں  جیسی  وضع  قطع  اختیا ر   کر یں  اللہ  کے ہا ں  ملعو ن  ہیں ۔(صحیح بخا ری :اللبا س  5887)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پا س ایک ایسا  مخنث لا یا گیا  جس نے عورتوں  کی طرح  اپنے  ہا تھ  پا ؤں  مہندی سے رنگے  ہو ئے تھے  آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ از خو د  عورتو ں  جیسی چا ل و ڈھا ل  پسند  کر تا ہے  تو آپ نے اسے  مدینہ  بدر  کر کے  علا قہ  نقیع  میں بھیج دیا  جہا ں  سرکا ری  اونٹو ں  کی چرا گا تھی آپ سے کہا گیا کہ اسے قتل کر دیا جا ئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر ما یا :" کہ مجھے  نما زیو ں کو قتل کر نے سے منع  کیا گیا ہے ۔(ابو داؤد:الادب 4928)

البتہ  خنشی  اس سے  مختلف  ہو تا  ہے کیو ں  کہ فقہا ء  کے ہا ں  اس کی تعریف  یہ ہے کہ جو  مردا نہ  اور زنانہ آلا ت  جنسی  رکھتا ہو یا دو نو ں  سے محرو م  ہو (المغنی لا بن قدامہ : ض 9ص108)

بلوغ  سے پہلے  اس لڑکے  یا لڑکی  ہو نے  کی پہچا ن اس کے پیشا ب  کر نے  سے ہو سکتی  ہے  اور بلو غ  کے بعد  اس کی داڑھی  یا  چھا تی  سے پہچا نا جا سکتا ہے  بہر صورت وہ شر عی  احکا م  کا پا بند  ہے اگر  مر د ہے تو مردوں  جیسے اور اگر  عورت ہے تو عورتو ں کے احکا م  پر عمل کیا جا ئے ۔

(5)صورت مسئولہ میں  جس  طرح  تفصیل بیا ن کی گئی ہے  اس سے  معلو م  ہو تا ہے  کہ سا ئل  لڑکی  ہے اور اس پر عورتو ں  جیسے  احکا م  لا گو ہو ں  گے لیکن  حقیقت  حا ل  وہ خو د  ہی  بہتر  جا نتا  ہے کہ  وہ اگر  مر د ہے  اور عورتو ں  جیسی شکل  و صورت  اختیا ر  کی  ہے  جو اس  کے گر و کی  صحبت اور تر بیت  کا نتیجہ  ہے تو اسے  اس شکل و صورت کو یکسر  ختم کر نا  ہو گا  کیو ں  کہ اللہ  اور اس کے رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس طرح  عورتو ں  کا  رو پ  دھا ر نے  والے  پر لعنت  فر ما ئی  ہے اور  اگر وہ حقیقت  میں عورت  ہی  ہے نیز  گرو کی  مجلس  نے اس  کی نسوا نیت  کو  دوآتشہ کر دیا ہے  تب  بھی  اسے  یہ کا م  ختم  کر نا ہو ں گے  اور مسلمان  عورتو ں  کی طرح  چا در  اور چا ردیو اری  کا تحفظ  کر نا ہو گا  تا ہم  احتیا ط  کا تقا ضا  ہے کہ حج  کے لیےئ عورتو ں  جیسا احرا م  اختیا ر  کر ے  یعنی  عا م  لبا س  پہنے اپنے  شہرے  کو کھلا  رکھے  تا ہم  اگر کو ئی  اجنبی  سا منے  آجا ئے  تو گھو نگھٹ نکا لے  جیسا  کہ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  کا بیا ن  کتب  حدیث  میں مرو ی  ہے کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے سا تھ   حالت  احرا م  میں ہو تیں  اور قا فلے  ہما ر ے  پا س  سے گزرتے  جب  وہ  ہما رے  سا منے آتے  تو ہم  اپنی  چا در یں  اپنے  چہرو ں  پر لٹکا لیتیں  اور جب  وہ گزر جا تے  تو ہم  انہیں  اٹھا  دیتیں ۔(ابو داؤد:منا سک 1833)

اس کے علا وہ  محر م  کی بھی  پا بندی  ہے کہ  وہ اپنے   کس محر م کے سا تھ  یہ مبا ر ک  سفر  کر ے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک  آد می  کو  اس کی  بیو ی  کے سا تھ  سفر  حج  پر روا نہ  کیا تھا  جبکہ  وہ جہا د  میں اپنا  نا م لکھوا  چکا تھا  اس لیے  سا ئل  کو حج  پر  جا نے  کے لیے  اپنے  کسی  محر م  کا انتخا ب  بھی  ضروری  ہے  اسے اپنے  کسی  محرم  کا پتہ  نہیں جیسا کہ سوال  میں بیا ن  کر دہ  صورت حا ل  سے وا ضح  ہو تا ہے  تو اسے  چا ہیے  کہ چند  ایسی  عورتو ں  کی رفا  قت  اختیا ر  اختیار کر ے جن  کے محر م  ان کے سا تھ  ہو ں  اسے  اجنبی  عورتو ں  یا  اکیلے  مردو ں  کے سا تھ  سفر  کر نے  کی شر عاً  اجا ز ت  نہیں ہے۔؟

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:435

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ