السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گھو ڑے کی حلت و حرمت کے متعلق قرآن و حدیث کا کیا فیصلہ ہے دلا ئل سے بیا ن کر یں (محمد عا شق ---قصور )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ گھو ڑا حلا ل ہے اور متعدد روایا ت میں اس کی حلت منقو ل ہے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ما تی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں گھو ڑا ذبح کیا اور اس کا گو شت کھا یا ۔(صحیح بخا ری :الذبائح 5519)
ایک روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت نے اس کا گو شت کھا یا ۔(دارقطنی:ج 4ص290)
حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خیبر کے دن گد ھو ں کے گو شت سے منع فرمایااور گھوڑےکے گوشت کوکھانے کی اجازت دی۔ (صحیح بخا ر ی : لذابا ئح 5520)
بعض روا یا ت میں ہے کہ ہم نے خیبر کے دن گھو ڑ ے کا گو شت کھا یا (صحیح مسلم :الصید 5022)
ائمہ کرا م میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اس کی حر مت منقو ل ہے البتہ امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استا د سے اختلا ف کر تے ہو ئے اس کی حلت کا فتو یٰ دیا ہے ۔(کنز الدقائق:ص229مترجم فا ر سی )
محدث ثنا ء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پا نی پتی حنفی لکھتے ہیں :"کہ گھو ڑا حلا ل ہے (ما لا بد منہ :ص110)
مو لا نا اشر ف علی تھا نو ی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ گھو ڑو ں کا کھا نا جا ئز ہے بہتر نہیں ہے ۔(بہشتی زیو ر:ج3ص56)
کتب فقہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفا ت سے تین دن پہلے گھو ڑے کی حر مت سے رجو ع کر لیا تھا(در مختا ر )مختصر یہ ہے کہ گھو ڑا حلا ل ہے اگر طبیعت نہ چا ہے تو اس کا کھا نا ضروری نہیں لیکن حلال کہنے والو ں پر طعن و تشنیع درست نہیں ہے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے صا ف اعلا ن کیا ہے کہ ہم گھو ڑے کے گو شت کے متعلق کو ئی حر ج محسو س نہیں کر تے ۔(کتا ب الا آثا ر :ص180)
اس بنا پر احنا ف کو اس مسئلہ کے متعلق سختی نہیں کر نی چا ہیے ۔(واللہ اعلم
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب