سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) لا حول ولا قوة إلا بالله کے آخری کلمات کیا ہیں

  • 11695
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 9915

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لا حول ولا قوة الا باللہ کلمے کے بارے میں بتائیں اس کے آخر میں العلي العظيم ہے یا العزيز الحكيم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا بالله

صحیح تو یہ ہے کہ آدمی اس کلمہ طیبہ کا اختتام "العزیز الحکیم" کے ساتھ کرے کیونکہ امام مسلم اپنی صحیح (2/345) باب فضل التسبیح والتھلیل والدعاء میں سعد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کوئی کلام سکھاو جو میں کہتا رہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو کہہ

«لا اله الا الله وحده لا شريك له الله أكبر كبيرا والحمد لله كثيرا وسبحان الله رب العالمين لا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم»

"اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اللہ بہت بڑا ہے اس کے لیے بہت تعریفیں ہیں ، اللہ پاک ہے جہانوں کا پالنے والا ہے ، اللہ کی توفیق کے بغیر برائی سے پھرنے کی قوت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے وہ غالب (زبردست) اور حکمت والا ہے  " تو اس نے کہا کہ یہ سب تو رب کے لیے ہے میرے لیے کیا ہے تو فرمایا : تو کہہ " اللهم اغفر لي وارحمني واهدني وارزقني " (اے میرے اللہ میری مغفرت فرما ، مجھ پر رحم فرما ہدایت اور رزق دے) تو اس حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے جو میں نے کہا اور مشکوۃ (1/202) الترغيب (2/430) میں ہے ۔

اور ایک حدیث میں وارد ہے جسے احمد نے (4/91-92) میں نکالا ہے جیسے کہ مشکوۃ (1/96) میں علقمہ بن وقاص ؓ سے روایت ہے کہ میں معاویہ ؓ کے پاس تھا جب کہ اس کے موذن نے آذان کہی تو معاویہ ؓ بھی وہی کہتے جو موذن کہتا جب موذن نے "حیی علی الصلاة " کہا تو انہوں نے " ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم " کہا اور اس کے بعد وہی کچھ کہا جو موذن نے کہا پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ کہا کرتے تھے۔ یہ حدیث ضعیف ہے اس میں عیسی اور عبد اللہ مجہول ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں مصنف کے قلم سے غلطی ہو گئی ہے یا لکھنے والوں کے قلم نے غلطی کی ہے ہم نے جب مسند احمد دیکھی تو ہمیں "العلي العظيم" نہ ملا ۔

امام احمد نے اس حدیث کو تین بار (4/91-92-98) ذکر کیا ہے ، پہلی سند صحیح اور دوسری ضعیف ہے جیسے کہ ہم نے کہا۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ کلمہ نہیں ہے یہ حدیث سنن نسائی (1/145) رقم (652) اور هيثمي نے المجمع (1/330 - 331) میں روایت کیا ہے لیکن کسی بھی روایت میں "العلي العظيم" ذکر نہیں ، جو مشکوۃ کی خطاء  پر دلالت کرتی ہے اور جو ملا علی قاری کا مرقات میں (2/122) قول ہے کہ "یہ زیادت روایات میں نادر ہے " قلت جستجو سے صادر ہوا ہے۔

یہ تحقیق مشکوۃ پر علامہ البانی ؒ کی تعلیق (1/213) رقم (675) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

صاحب مرقاۃ (1/38) میں خطبہ میں مصنف کے قول "ولا حول ولا قوة الا بالله العزيز الحكيم" کے ساتھ اختتام مشہور ہے وہ وارد نہیں۔ جبکہ حافظ جزری ؒ کی حصن حصین کے بعض نسخوں میں "العلي العظيم" کے ساتھ اختتام کی روایت موجود ہے شاید وہ دوسری روایت ہو۔ جان لو کہ صحیح "العزيز الحكيم" والی ہے جو صحیح مسلم میں ہے جسے صاحب مصابیح نے نقل کیا ہے اور صاحب مشکوۃ بھی ان کے تابع ہیں اور اسی طرح اصل حصن حصین میں ہے لیکن حاشیہ میں "العلي العظيم" لکھا ہے اور بزار کی طرف منسوب ہے (واللہ اعلم)۔

تنبیہ: پھر بعد میں دوسری بار تحقیق میں ہمیں ابن ماجہ (2/335) رقم (3878) اور ابن السنی کی عمل اليوم والليلة رقم (751 /35) صحیح سند کے ساتھ عبادۃ بن صامت ؓ کی روایت ملی وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس کی رات کو نیند اچاٹ ہو جائے جب وہ جاگے تو کہے:

« لا إله إلا الله وحده لا شريك له،له الملك وله الحمد وهو على كل شئ قدير  سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر  ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم»

پھر دعا کرے اے اللہ میری مغفرت فرما ۔ تو اسے بخش دیں گے۔ ولید نے کہا یا کہا : دعا تو قبول ہوگی پھر اگر کھڑا ہوا اور وضوء کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز مقبول ہوگی۔

بخاری (1/155) ترمذي (3/149) رقم (3654) "باب ما جاء في الدعاء اذا النتبه من الليل " ابو داود (3/954) رقم (506) احمد (5/313) المشكوة (1/108)۔

لیکن بخاری اور اس کے بعد والوں کی روایت میں یہ کلمہ نہیں ہے یہ صرف ابن ماجہ ، ابن السنی اور الکلم الطیب (ص : 42) رقم (42) میں ہے لیکن حوالہ صحیح بخاری کا دیا ہے اور اس میں یہ کلمہ نہیں ہے۔اورمنذری کی الترغيب (2/435) میں ابو ھریرۃ ؓ سے روایت ہے یقینا اس نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو

« سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر  ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم »

کہے تو اللہ فرماتا ہے "میرا بندہ مسلمان ہوا تابعدار ہوا"۔

روایت کیا اس کو حاکم نے اور اسے صحیح الاسناد کہا۔

پھر جب ہم نے مستدرک (1/502) کا مراجعہ کیا تو یہ کلمہ ہمیں وہاں نہیں ملا تو یہ منذری کی خطاء پر دلالت کرتا ہے اس حدیث میں اس کی خطا پر دلالت کرتا ہے جسے اس نے نکالا ہے " ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم " اکثر پڑھا کرو ، یہ جنت کے خزانے میں سے ہے (رواه الترمذي)۔

جب ہم نے ترمذی (3/76) رقم (3853) دیکھی تو ہمیں یہ کلمہ وہاں نہ ملا ، اور یہ منذری کی عدم تحقیق کی وجہ سے ہے اور حدیث صحیح ہے پھر بزار کی روایت المجمع (10/61) میں اسی طرح ہے "سعد سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا مجھے کوئی کلمہ سکھائیں جو میں کہوں" فرمایا :

«لا اله الا الله وحده لا شريك له والله اكبر كثيرا وسبحان الله رب العالمين ولا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم»

میں کہتا ہوں : یہ صحیح میں ہے سوائے قول "العلي العظيم" کے بزار نے روایت کیا ہے اور راوی اس کے صحیح ہیں۔الخ اور الوابل الصیب (ص: 92) اور ابن السني رقم (57 ص: 30) میں صبح و شام کی دعاوں میں لفظ "العلي العظيم" وارد ہوا ہے ضعیف سند کے ساتھ اس میں اغلب بن تمیم منکر الحدیث ہے تو ثابت ہوا کہ اس کلمے کو "العزيز الحكيم" کے ساتھ ختم کرنا چاہیے اور "العلي العظيم" کے ساتھ ختم کرنا جائز نہیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص222

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ