السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خانیوال سے اطہر مشہدی لکھتے ہیں۔ کے آپ نے دیور سے پردہ کے متعلق وضاحت فرما کر ا یک دیرینہ ضرورت کو پورا کردیا۔ذرا بہنوئی سے پردہ کے متعلق بھی تحریر کریں حقیقت یہ ہے کہ بہنوئی بھی ہما رے معا شر ہ میں با عث آزما ئش بنا ہو ا ہے اسے دیو ر کی نسبت اختلا ط کا زیا دہ مو قع ملتا ہے جس سے کئی ایک برا ئیا ں جنم لیتی ہیں اس کے متعلق وضا حت لکھیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پرا دہ کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرا ت سے اگر تمہیں کچھ ما نگنا ہے تو پر دے کے پیچھے سے ما نگا کرو ۔(33الاحزاب:53)
روایا ت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کے نزو ل سے پہلے متعدد مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر چکے تھے کہ آپ کے ہا ں بر ے بھلے سبھی لو گ آتے ہیں اس لیے آپ اپنی ازواج مطہرا ت و طیبا ت کو پر دہ کر نے کا حکم دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چو نکہ قا نو ن سا زی میں خو د مختا ر نہ تھے اس لیے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اشا رہ کے منتظر رہے آخر کا ر یہ حکم آگیا کہ محرم مر دو ں کے علا وہ کو ئی دوسرا آپ کے گھر نہ آئے اور جس غیر محرم کو خو اتین خا نہ سے کو ئی کا م ہو تو وہ پر دے کے پیچھے سے با ت کر ے اگلی آیت میں ان ،حرم رشتہ دارو ں کی فہرست ہے جن سے پر دہ ضروری نہیں ہے :" ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :" ازواج مطہرا ت کے لیے اس میں کو ئی مضا ئقہ نہیں کہ ان کے با پ ان کے بیٹے ان کے بھا ئی ان کے بھتیجے ان کے بھا نجے ان کے میل جو ل کی عورتیں اور ان کے مملو ک گھرو ں میں آئیں ۔(33الاحزا ب:55)
اس فہرست میں بہنو ئی کا ذکر نہیں ہے لہذا اس سے پر دہ کر نا ضروری ہے اس آیت میں چچا اور مامو ں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلہ والدین ہیں یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے سا قط کر دیا گیا ہے کہ بھتیجوں اور بھا بجو ں کا ذکر آجا نے کے بعد ان کے ذکر کی حا جت نہیں رہی کیو نکہ بھتیجے اور بھا نجے سے پر دہ نہ کر نے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور مامو ں سے پر دہ نہ کر نے کی ہے بہر حا ل بہنو ئی ان محر م رشتے دارو ں میں شا مل نہیں ہے جس سے پر دہ اٹھا لیا گیا ہو بلکہ پر دہ کے لیے ضا بطہ یہ ہے کہ جس سے عورت کا نکا ح کسی وقت بھی ہو سکتا ہو اس سے پردہ اس سے پر دہ کر نا بھی ضروری ہے بہر حا ل بہنو ئی اپنی سا لی سے نکا ح کر سکتا ہے جب اس کی بیو ی فو ت ہو جا ئے یا اسے طلا ق ہو جا ئے ۔وا ضح رہے کہ پر دہ کے متعلق یہ ابتدا ئی احکا م تھے اس کے علا وہ سورۃ نور میں احکا م ستر و حجا ب بیان کیے گئے ہیں وہا ں بھی جن لو گو ں کو پر دہ سے مستثنی ٰ کیا گیا ہے ان میں بہنو ئی شا مل نہیں ہے ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :" وہ (عورتیں ) اپنا بنا ؤ سنگا ر ظا ہر نہ کر یں مگر ان لو گو ں کے سامنے شو ہر با پ شوہر وں کے با پ اپنے بیٹے اپنے شو ہروں کے بیٹے بھا ئی بھا ئیو ں کے بیٹے بہنو ں کے بیٹے ----"(24/النو ر :31)
ان تصریحا ت سے معلو م ہو ا کہ بہنو ئی غیر محر م ہے جس سے پر دہ ضروری ہے ہے ہمیں اس پہلو پر خا ص نظر رکھنی چا ہیے عا م طو ر پر بے تکلفی کے اندا ز میں بہنو ئی سے پر دہ نہیں کیا جا تا ہم لو گ بھی اس معا ملہ میں نر می سے کا م لیتے ہیں بعض اوقا ت اس نر می کے غلط نتا ئج بر آمد ہوتے ہیں جو ہما ر ی غیر ت کے لیے جا ن لیو اثا بت ہو تے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب