السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ادارۃ خدمۃ الکتاب والسنۃ کے قابل اعتماد رکن جناب پروفیسر حسین آذاد وہاڑی سے لکھتے ہیں۔کہ مستدرک حاکم کا ترجمہ کرتے ہوئے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سامنے آئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کو بلند وبالا محلات میں مت رکھو اور انہیں لکھنا نہ بھی سکھاؤ بلکہ انہیں سوت کاتنے اور سورہ مریم کی تعلیم دو۔(مستدرک حاکم)
اس حدیث کی وضاحت کریں جبکہ اسلامی خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔پھر اس قسم کی احادیث کے پیش نظر منکرین حدیث کو احادیث پر اعتراض کا موقع ملتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں کہ اسلام خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔امہات المومنین کو اللہ تعالیٰ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ''تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیات اور دانائی کی باتیں پڑھی جاتی ہیں۔ان کا زکر کرتی رہو۔''(33الاحزاب :34)
اس آیت کریمہ میں''حکمۃ'' سے مراد احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو اپنے گھروں میں قرآن وحدیث پڑھنے پڑھانے کی تلقین کی ہے۔اس سے تعلیم نسواں کی طرف واضح اشارہ ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو لکھنا پڑھانا سکھانا شریعت کی نظر میں جائز اور درست ہے۔جبکہ مذکورہ حدیث سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی استنادی حیثیت کو واضح کیا جائے۔اور اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک(صفحہ 396 جلد2)اورف امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شعب الایمان(صفحہ 377 جلد 5) میں روایت کیا ہے۔بنیادی طور پراسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔پھر انہیں کے واسطے سے امام بیہقی نے نقل کیا ہے۔اس روایت میں ایک راوی عبدا لوہاب بن الضحاک ہیں جن کے متعلق محدثین کرام نے اچھے تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔چنانچہ حافط ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔''کہ متروک ہے اورابو حاتم نے اسے کذاب کہا ہے۔''(تقریب:222)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ '' کہ اسے عجائب و غرائب بیان کرنے کی عادت ہے۔''(الکامل لابن عدی :5/1933)
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:'' کہ مقلوب اور باطل احادیث وضع کرتے ہوئے دیکھا ہے۔''(تہذیب :6/396)
امام حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص المستدرک میں اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔اور فرمایا''کہ اس کی آفت عبدا لوہاب بن الضحاک ہے جسے امام ابو حاتم نے کذاب کہا ہے۔''(المستدرک 2/396)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی ایک دوسری سند بیان کی ہے۔اس کے متعلق لکھا ہے۔کہ یہ روایت اس سند کے ساتھ بھی منکر ہے یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔(شعب الایمان 5/ 389 حدیث نمبر 2227)
اس سند میں ایک راوی محمد بن ابراہیم الشامی ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے منکر قرار دیا ہے۔(تقریب :ص 288)
اور ابن حبان کے حوالے سے لکھا ہے۔ کہ احادیث وضع کیا کرتاتھا۔(تہذیب :9/14)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ روایت کو وضع حدٰیث کے سلسلہ میں بطور مثال بیان کیا ہے۔ نیز دار قطنی کے حوالہ سے لکھا ہے۔کہ یہ راوی کذب ہے۔(میزان الاعتدال:3/446)
ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی عام مرویات غیر محفوظ ہوتی ہیں۔(الکامل :6/2275)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت بایں الفاظ منقول ہے:
''اپنی عورتوں کو خط وکتابت کی تعلیم نہ د و انہیں بالا خانوں میں مت رکھو عورت کے لئے بہترین تفریح سوت کاتنا اور مرد کےلئے سیر وسیاحت ہے۔''(ضعفاء لابن حبان :3/78)
اس سند میں ایک راوی جعفر بن نصر ہے۔جس کے متعلق امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ کہ یہ مہتم بالکذب ہے۔(میزان الاعتدال :1/418)
پھر انہوں نے اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث کا حوالہ بھی دیا ہے۔ علامہ ابن عدی نے لکھا ہے کہ جعفر بن نصر ثقہ راویوں کے نام سے باطل احادیث بیان کرتا تھا پھر انہوں نے بطور مثال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کا حوالہ دیا ہے۔(الکامل :1/575)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو اکہ عدم جواز کی جملہ روایات نا قابل اعتبار اور بے بنیاد ہیں۔لہذا ان کو بنیاد بنا کر تعلیم نسواں کو ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کتب حدیث میں چند ایسی بھی ا حادیث بھی ہیں۔جو عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے متعلق بڑی وضاحت سے دلالت کرتی ہیں۔چنانچہ شفاء بنت عبدا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔اور مجھے فرمایا:''کہ تم حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مرض نملہ کی جھاڑ پھونک سکھائو جیسا تم نے اسے خط وکتابت کی تعلیم دی ہے۔''(مسند امام احمد:6/372 ابو دائود الطب 3887)
نملہ ایک انتہائی تکلیف دہ قسم کا پھوڑا ہے۔مریض ایسا محسوس کرتا ہے اس پرچیونٹیاں رینگتی اور اسے کاٹتی ہیں۔ یہ حدیث عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی واضح دلیل ہے۔اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک اثر سے بھی ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت فرماتی ہیں۔کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زیر کفالت تھی۔لوگ مختلف ممالک سے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔اور ہدیہ پیش کرتے کیونکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں میری بہت قدر ومنزلت تھی۔تمام شہروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام خطو ط میرے پاس آتے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہتی خالہ جان! یہ خط اور ہدیہ فلاں شخص نے بھیجا ہے۔آپ مجھے فرماتیں:'' کہ بیٹی!کہ انہیں جواب لکھو اور ہدیہ کے بدلے بھی کچھ نہ کچھ روانہ کرو اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہوتو میں دے دوں گی۔''چنانچہ وہ مجھے کچھ دے دیا کرتی تھیں۔(الادب المفرد :287 حدیث نمبر 1118)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ چھوٹی بچیوں کو تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان کے سرپرستوں پر ہے۔ کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کا اہتمام کریں۔ البتہ بالغ خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ خواتین یا محارم سے تعلیم حاصل کریں۔ پردہ میں رہتے ہوئے غیر محرم سے بھی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔بہر حال عورتوں کو لکھنا پرھنا سیکھنا چاہیے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب