سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(407) تحقیق حدیث

  • 11673
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2132

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض اہل حدیث مصنفین نے درج زیل احادیث کو اپنی  تالیفات میں زکر کیا ہے ان کی اسنادی حیثیت کے متعلق وضاحت کریں۔

1۔جس نے عیدین کی دونوں راتوں میں اخلاص اور حصول ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کا دل اس دن زندہ رہے گا۔جس دن دل مردہ ہوجائیں گے۔

2۔جو پانچ راتوں میں عبادت کرے گا۔ اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گ ی۔زوالحجہ کی آٹھویں نویں اور دسویں رات عید الفطر کی رات اور شعبان کی پندرہویں  رات۔(محمد اسلام طاہر محمدی لاہور:خریداری نمبر 1274)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی روایت موضوع ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عمر بن ہارون البلخی ہے جس کے متعلق علامہ ذھبی لکھتے ہیں''ابن معین نے اسے کذب کہا ہے۔اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے متروک  قرار دیا ہے۔''(تلخیص المستدرک"ج4ص87)

میزان الاعتدال میں اس کے متعلق''کذاب خبیث''کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔(میزان الاعتدال :ج3ص228)

علامہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اسے خود ساختہ اور بناوٹی بتایا ہے۔(سلسلہ احادیث الضعیفۃ ج2ص11)

مذکورہ الفاظ سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ اس میں بقیہ بن ولید نامی ایک راوی سخت مدلس ہے۔محدثین کر ام نے اس کی تدلیس سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :'' عید کی رات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح تک سوئے رہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شب بیداری نہیں فرمائی۔عیدین کی رات عبادت  کرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے۔''(زادالمعاد ج1 ص 212)

دوسری  روایت کو علامہ منذری نے بیان کیا ہے۔(الترغیب و الترھیب :152//2)

علامہ منذری نے اس کے موضوع یا ضعیف کے طرف بھی اشارہ کیا ہے۔کیونکہ انھوں نے بصیغہ تمریض بیان کیا ہے۔بعض روایتوں میں پانچ راتوں کی بجائے چار راتوں کے   الفاظ ہیں۔اس روایت میں عبدالرحیم بن زید العمی راوی کذاب ہے۔اور اس سے بیان کرنے والا سوید بن سعید بھی سخت  ضعیف ہے۔ علامہ البانی نے اس روایت پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ :ج1 ص12)

بعض روایات میں عید ا لفطر کی رات کو لیلۃ الجائزہ کے نام سے زکر کیا گیا ہے۔اسے ابن حبان نے اپنی تالیف کتاب الشواب میں نقل فرمایا ہے۔حافظ منذری نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے الفاظ ہی اس کے موضوع ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔حافظ منذری نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔(ترغیب :ج1 ص 100)

بہرحال ہمارے ہاں بزرگ ان ر اتوں میں عبادت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔جبکہ اس سلسلے میں مروی احادیث قابل اعتماد نہیں ہیں۔جیسا کہ گزشتہ سطور میں وضاحت کی گئی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:418

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ