السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈیرہ نواب سے عبد الرحمٰن لکھتے ہیں۔کہ جو خطیب حضرات تنخواہ لے کر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں۔ان کا کاروبار تو اذان جمعہ کے متصل ہی شروع ہوجاتا ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے تو کیا اس فرمان الٰہی کی رو سے علمائے حضرات کا معاوضہ لے کر خطبہ دینا صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ پیش آ مدہ مسئلہ کے مطابق ہم افراط وتفریط کا شکار ہیں کیوں کہ اس دور میں کچھ حضرات جو خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں۔ضروریات زندگی سے آگے بڑھ کر طمع ولالچ اور ہوائے نفس کاشکار ہوچکے ہیں۔جبکہ رد عمل کے طور پر بعض انتہا پسند اس دینی خدمت پر''کاروبار''کی پھبتیاں کس رہے ہیں۔اور بعض مقامات پر فضا اس قدر مکدر کردی گئی ہے۔کہ بقدر ضرورت مشاہرہ لینے کے ''جرم '' میں ان کے پیچھے نماز پڑھنا ترک کردیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں ہماری گزارشات یہ ہیں۔کہ ضروریات زندگی سے بالا تر ایسے مخلصین آج کل کہاں دستیاب ہیں۔جو فی سبیل اللہ یہ خدمت سر انجام دیں۔دوسری طرف یہ بھی اندیشہ ہے۔ کہ طعن وملامت کے ان شدید حملوں کی تاب نہ لا کر بعض کم ہمت اس دینی فریضہ کی بجا آوری سے اجتناب کرنے لگیں۔ اس کے سنگین نتائج مساجد کے ویران ہونے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کے تما م پہلووں کو سامنے رکھ کر اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ لہذا سوال یوں ہونا چاہیے کہ دینی کام کے لئے کسی صاحب علم کی ہمہ وقتی یا جزو قتی خدمات معقول مشاہرہ پر حاصل کی جاسکتی ہیں یا نہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاملہ پیش خدمت ہے۔ کہ وہ خلافت اٹھانے سے پہلے کپڑا فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔ جس دن خلافت کا بوجھ کندھوں پر آپڑا تو اگلے دن حسب پروگرام کپڑا فروخت کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:جناب امیر المومنین!رعایا کی زمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ کیا کرنے لگے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اہل خانہ کو کہاں سے کھلائوں؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ہم آ پ کا ماہانہ وظیفہ مقرر کردیتے ہیں۔ یہ ہماری زمہ دار ی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بیان کرتے ہیں۔ کہ خلافت سے پہلے میرا کاروبار میرے بال بچوں کے لئے کافی تھا۔اب چونکہ میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف رہتا ہوں۔لہذا آل ابی بکر کو مسلمانوں کے مال سے بقدر ضرورت لینے کا حق ہے۔(بخاری کتاب البیوع حدیث نمبر 2070)
قرآن مجید کی تصریح کے مطابق خلیفہ کی پہلی زمہ داری نماز پڑھانا ہے۔(22/الحج "41)
جب اس مصروفیت کی وجہ سے خلیفہ کو بیت المال سے کچھ وصول کرنے کا حق ہے۔تو خطیب کو اپنی پابندی اور مصروفیت کا حق وصول کرنا کیوں ناجائز ہے؟جبکہ وہ اہل مسجد سے ''معاہدہ خدمت'' کرنے کے بعد مصروف ہوگیا ہے۔اس طرح جز وقتی دینی خدمات سر انجام دینے پر مشاہرہ وصول کرنا بھی شریعت سے ثابت ہے۔جیسا کہ ایک مریض پر سورۃ فاتحہ کا دم کرنے پر چالیس بکریاں لینے کا معاہدہ طے ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا:'' کتاب اللہ پر معاوضہ لینے کا تم زیادہ حق رکھتے ہو۔''(صحیح بخاری کتاب الطب حدیث نمبر ک5737)
بلکہ آپ نے دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لئے مذید فرمایا:'' کہ میرا بھی اس میں حصہ رکھنا۔''(حدیث نمبر 5736)
اب ہم ایک اور پہلو سے بھی اس کا جائز لیتے ہیں۔ کہ کیاواقعی یہ دینی خدمت کاروبار یا خریدوفروخت ہے۔جو اس آیت کی ذد میں آتا ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ اجارہ کی ایک قسم ہے۔ جو پابندی کے مقابلہ میں طے ہوئی ہے۔ اگر سے کاروبار کا نام بھی د ے دیا جائے۔ تو بھی منع نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے بعد اس کاروبار کو منع فرمایا ہے۔جو زکر اللہ یعنی جمعہ کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث ہو یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کو آتے وقت راستے میں جو کاروباری معاملہ طے ہوجاتا ہے۔اس میں شرطاً کوئی قباحت نہیں ہوتی۔اس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔صورت مسئولہ میں جس دینی خدمت کو کاروبار کہا گیا ہے۔ وہ اللہ کے زکر میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو عین اللہ کا زکر ہے۔ اس میں اور دنیا وی کاروبار میں کیا قدر مشترک ہے کہ دونوں کاحکم ایک جیسا ہو؟ مسئلہ کی وضاحت کے بعد ہم خطیب حضرات سے بھی یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ صاحب حیثیت ہیں تو اس قسم کی خدمت کو لوجہ اللہ سر انجام دیں اور اگر واقعی ضرورت مند ہیں تو بقدر ضرورت لینے پر اکتفا کریں۔اسے دنیا طلبی کا زریعہ نہ بنایا جائے بلکہ جذبہ تبلیغ سے سرشار ہوکر اس عظیم خدمت کو سرانجام دیا جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب