سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(405) نماز عید کے بعد مصافحہ اور گلے ملنا

  • 11671
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1355

سوال

(405) نماز عید کے بعد مصافحہ اور گلے ملنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹھینگ موڑ(الٰہ آباد) سے محمد شفیع پوچھتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام طور پر نماز عید کے بعد مصافحہ کرنے اور گلے ملنے کی عادت ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟نیز عید کے موقع پر مبارک باددینے کا بھی ثبوت ملتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز عید کے بعد مصافحہ کرنے یا گلے ملنے کا ثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا۔مولانا ثناء اللہ امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  سے کسی نے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے بایں الفاظ بڑا جامع جواب دیا فرماتے ہیں۔:'' مصافحہ بعد از سلام آیا ہے۔ اور عید کے روز بھی بحیثیت تکمیل سلام مصافحہ کریں تو جائز ہے۔بحیثیت خصوص عید بدعت ہے کیوں کہ زمانہ رسالت وخلافت میں مروج نہ تھا۔''(فتاویٰ ثنائیہ :1/450)

البتہ عید کے بعد ایک دوسرے کوبایں الفاط مبارک باد دی جاسکتی ہے۔'' تقبل الله منا ومنكم''(اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے) اگرچہ اس کے متعلق بھی کوئی مرفوع روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا عمل صحیح سند سے منقول ہے۔چنانچہ حضرت جبیر بن معطم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں:'' کہ صحابہ کرام جب عيد كےدن ملتے تو مذکورہ الفاظ سے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے تھے۔''(فتح الباری :3/446)

اسی طرح محمد بن زیاد فرماتے ہیں:'' کہ میں حضرت ابو ابامہ باہلی اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ہمرا ہ تھا۔جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے تو انہوں نے ان الفاظ میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔اللہ ہم سے اور تجھ سے قبول فرمائے۔''(الجواہر التقی:3/320)

کتب حدیث سے بعض روایات ایسی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت معلوم ہوتی ہے۔ اور اسے اہل کتاب کاطریقہ بتایاگیا ہے۔ لیکن وہ روایات محدثین کے میعار صحت پر پورا نہیں اترتی۔(سنن بیہقی :3/32)

ان الفاظ کے پیش نظر مذکورہ الفاظ سے مبارک باد دی جاسکتی ہے۔لیکن مصافحہ کرنا اور معانقہ ایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ملتا۔(واللہ اعلم)

عید منانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے رمضان کا مہینہ کیسے گزارا؟اس کے حقوق الفرائض کیسے کہا ں تک ادا کئے؟روزہ کے مقصد(حصو ل تقویٰ) کو حاصل کرنے کے لئے کس حد تک کوشش کی؟کیا رمضان کے روزوں سے ہماری دینا کی محبت میں کمی اور آخرت کے شوق میں  اضافہ ہوا؟دنیامیں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی نے ہمیں کس حد تک پریشان کیا؟ان کے ساتھ مالی اخلاقی تعاون کا جذبہ کس حد تک بیدا ر ہوا؟اگر ان سب سوالوں کاجواب اثبات میں ہے تو ہم عید منانے اور اسکی مبارک باد دینے اور قبول کرنے کے حق دار ہیں۔بصورت دیگر ہم اپنے  گریبان میں خود جھانکیں اور سوچیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:415

تبصرے