سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(404) بلا عذر مسجد میں نماز عید پڑھنا

  • 11670
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 772

سوال

(404) بلا عذر مسجد میں نماز عید پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیالکوٹ سے پروفیسر حفیظ اللہ اعوان  لکھتے ہیں  کہ مسجد  میں  بلا  عذر  نما ز عید  ادا کر نا  شر عاً کیا حقیقت  رکھتا  ہے  کیا اس  طرح مسجد  میں عید  پڑھنے  سے ثو اب میں کمی  تو نہیں ہوتی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا زندگی بھر یہی معمول رہا ہے کہ آپ کھلے میدان میں نماز عیدادا کرتے تھے۔حالانکہ مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں گنجائش ہوتی تھی۔ اسی طرح خلفائے راشدین بھی اسی سنت پر عمل پیرار ہے۔مساجد میں عید نماز ادا کرنے سے ترک سنت کے علاوہ ایک  زبردست نقصان یہ ہے کہ ہر گلی کوچے کی مسجد میں اس کا اہتمام ہونےلگا ہے۔ جو اسلام کی شان وشوکت کے بالکل منافی ہے۔ اس لئے ہمیں مساجد میں عید نماز ادا کرنے کی بجائے کھلے پارک میں اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کے متعلق بکثرت ا حادیث وار ہیں۔ ہم چند ایک کا حوالہ دیتے ہیں۔

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عید الفطر اورعید الاضحیٰ کےدن عید کی ادائیگی کے لئے عید گاہ تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری : کتاب العیدین)

یہ عید گاہ مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کے مشرقی جانب بقیع کے پاس تھی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  اور اس کے درمیان تقریباً ایک ہزار فٹ کا  فاصلہ تھا۔(فتح الباری)

٭ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عید کے دن نماز عید کی ادائیگی کے لئے صبح صبح عید  گاہ تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری کتاب العیدین)

٭ حضرت براء بن عاذب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عید الاضحیٰ  کے دن بقیع کی  طرف گئے وہاں عید گاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز عید کی دو رکعات پڑھائیں۔(صحیح بخاری کتاب العیدین)

٭ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ نماز عید اداکی؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا کہ ہاں!رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کی ادائیگی کے لئے عید گاہ تشریف لے جاتے۔ جہاں آج کثیر بن صلت کا گھر ہے۔آپ نے نما زعید اداکی اور پھر خطبہ دیا۔(صحیح بخاری کتاب العیدین)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل یہی تھا۔ کہ آپ نماز عید کی ادائیگی کےلئے باہر کھلے میدان میں تشریف لےجاتے باوجود اس کے کہ نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں ادا کرنے سےایک ہزار نماز کے برابرثواب ملتا ہے۔چنانچہ حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :

''رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کامعمول تھا کہ ہمیشہ نماز عیدین عید گاہ میں ادا کرتے تھے۔''(زاد المعاد:1/172)

خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کابھی یہی معمول تھا۔چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ ہر ذات نطاق(عورت) کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز  عید کی ادائیگی کے لئے عید گاہ جائے۔''( مصنف ابن ابی شیبہ :2/184)

حضرت ام عطیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں۔:''کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں حکماًکہتے تھے کہ ہم عورتوں کو عید گاہ لے کر چلیں جو کسی مجبوری کی وجہ سے  نماز ادا نہیں کرسکتی۔وہ بھی عید گاہ جاتیں اور مسلمانوں کی دعائے خیر میں شرکت کرتیں جبکہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے مخصوص ایام میں مبتلا عورتیں اس سنت کی ادائیگی سے محروم رہتی  ہیں ہاںاگر بارش آندھی وغیرہ کا عذر ہو تو مسجد میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:414

تبصرے