السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ضلع بھکر سے محمد ایو ب لکھتے ہیں کہ ہما ری مسجد میں سنت کے مطابق جمعہ کی صرف ایک اذا ن دی جا تی تھی مقا می خطیب نے بعض احنا ف کے اصرار پر دو اذانو ں کا سلسلہ شرو ع کر دیا ہے اب کچھ نمازی اس کی مخا لفت کر رہے ہیں اور کچھ اس کی حما یت پر کمر بستہ ہیں تا کہ جما عت انتشا ر کا شکا ر نہ ہو جا ئے مخا لفت کر نے وا لو ں نے دوسرو ں سے بو ل چا ل بند کر دی ہے بعض افراد نے مقا می خطیب کے پیچھے نما ز پڑھنا بھی تر ک کر دی اب دریا فت طلب امر یہ ہے کہ :
(1)نما زیو ں کی تعداد میں اضا فہ کے پیش نظر سنت کو نظر اندا ز کیا جا سکتا ہے ؟
(2) کیا بو ل چا ل بند کر دینا اللہ کی نا را ضگی تصور ہو گی ۔
(3)کیا ایسے حا لا ت میں مقا می خطیب کے پیچھے نما ز پڑھنا درست ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ اصل اذا ن تو وہی ہے جو امام کے منبر پر بیٹھتے وقت دی جا تی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسا لت اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلا فت میں جمعہ کے دن اس وقت اذا ن دی جا تی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جا تا ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الجمعہ )
اس حدیث سے معلو م ہو اکہ جمعہ کے دن ایک اذا ن دینے کا یہ طرز عمل حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلا فت تک جا ری رہا حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو ر خلا فت میں مدینہ کی آبا دی بڑھ گئی تھی جس کی وجہ دے دور دور تک مکا نا ت پھیل گئے تھے تو حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لو گو ں کی سہو لت کے پیش نظر زور اء نا می پہا ڑی پر ایک اور اذا ن دینے کا فیصلہ فر ما یا جسے صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے قبو ل کر لیا البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس اذا ن کو خلا ف سنت کہا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :3/140)
پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دار الحکو مت کو فہ میں اسے ختم کر کے اذان نبو ی یکو ہی بر قرار رکھا ۔(تفسیر قر طبی :18/100)
حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطا بق نو یں صدی ہجری کے نصف تک مغر ب کے علا قہ میں جمعہ کے دن صرف ایک اذا ن دینے کا اہتما م تھا امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ جمعہ کی اذا ن کے متعلق عہد رسا لت ہی طرز عمل کو زیا دہ پسند کرتا ہو ں ۔(کتا ب الام :1/195)
تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبو ی کے مطا بق جہا ں ایک اذا ن دینے کا عمل ہے وہا ں اسے بر قرار رہنا چا ہیے کسی خا ص مکتب فکر کے لو گو ں کو خو ش کر نے کے لیے اس طرز عمل کو بد لنا قطعاً مستحسن نہیں ہے البتہ جہاں دو اذا نیں ہو تی ہیں وہا ں دیکھا جا ئے اگر کسی قسم کے فتنہ و فسا د کا اندیشہ نہ ہو تو وہا ں ایک اذا ن پر اکتفا کر نا چا ہیے اگر حا لا ت نا سا ز گار ہو ں تو دو نو ں اذا نو ں کو بر قرار رکھنے کی گنجا ئش مو جو د ہے ایسا کرنا گنا ہ نہیں کیو ں کہ صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کی مو جو د گی میں خلیفہ را شد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عمل کو جا ری فر ما یا تھا اور ان کی اکثریت نے اسے قبول کر لیا تھا اس بنا پر ایسے معا ملا ت کو با ہمی اختلا ف وجدا ل کا ذریعہ نہ بنا یا جا ئے اب سوالات کے تر تیب وار جوا ب ملا حظہ فرما ئیں :
(1)نما زیو ں کی تعداد میں اضا فہ کے پیش نظر اندا ز کر کے دو اذا نو ں کو جا ری کر نا درست نہیں ہے بلکہ نما زیو ں کے دلو ں میں سنت کی افادیت و اہمیت کو اجا گر کیا جا ئے ۔
(2)ایسے معا ملا ت کو سا منے رکھ کر نما ز یو ں کا آپس میں بو ل چا ل بند کر لینا درست نہیں ہے بلکہ افہا م و تفہیم کے ذریعے محبت و یگا نگت کی فضا پیدا کی جائے۔اس قسم کی نا را ضگی اللہ کے لیے نا را ضگی تصور نہیں ہو گی ۔
(3)مقا می خطیب نے غلطی کا ارتکا ب ضرورکیا ہے لیکن اسے تو ہین سنت کا نا م دے کر اس کے پیچھے نماز پڑھنا نما ز تر ک کر دینا دا نش مند ی نہیں ہے اللہ تعا لیٰ ان حضرات کو بد گما نی سے محفو ظ رکھے اور انہیں اتفاق و محبت سے رہنے کی تو فیق دے آمین ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب