السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
افتخار نامی ایک شخص نے پہلی بیوی کی موجودگی میں عقد ثانی کاارادہ کیا دوسری بننے والی بیوی نے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط عائد کی چنانچہ موصوف نے اسے مطمئن کرنے کے لئے پہلی بیوی کے نام طلاق تحریر کرکے دوسری ہونے والی بیوی کے حوالے کردی کہ تم اس تحریر کو خود ہی ارسال کردو۔اس نے اس تحریر کو اپنے پاس رکھا اس طرح شادی ہوگئی دوسری طرف اس نے پہلی بیوی سے کہہ دیا کہ اگر تجھے میری طرف سے تحریر ملے تو اسے وصول نہ کرنا یا اسے پھاڑ دینا اس نکاح جدید کے دو سال تین ماہ بعد پہلی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا جو اس کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھی۔جب دوسری بیوی کو اس کا علم ہوا تو اس نے طلا ق نامہ مع اپنا نکاح نامہ پہلی بیوی کوارسال کردیا جب اس کے والدین کو پتہ چلا تو وہ اپنی بیوی کو افتخار کے گھر سے لے گئے اب اس کا موقف ہے کہ میں نے طلاق نامہ خوشی سے نہیں لکھا تھا بلکہ مجبوری اوردوسری سے نکاح کے لالچ میں تحریر کیا تھا۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ طلاق واقع ہوچکی ہے؟افتخار کااس دوران پہلی بیوی کے پاس رہنا درست تھا۔کیا پہلی بیوی سے رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟کیونکہ اس نے تینوں طلاق بیک وقت تحریر کردی تھیں۔(حافظ عطاءالرحمٰن مریدکے خریداری نمبر 5655)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں نکاح ثانی کے وقت دین سے ناواقفیت کی بنا پر کئی ایک غیر شرعی کام ہوئے ہیں۔پہلا تو یہ کسی عورت کا پہلی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرناشرعا درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق واضح طور پر منع کیا ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
'' کہ کوئی عورت نکاح کے وقت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔تاکہ اس کے برتن کو انڈیل کر رکھ دے۔''(صحیح بخاری ؛الشروط 2723)
دوسری روایت میں ہے کہ اسے تو وہی کچھ ملے گا جو اس کا مقدر ہے۔(اس لئے مطالبہ طلاق کے بغیر ہی نکاح کرے)(صحیح بخاری النکاح 5152)
دوسرا غیر شرعی کام یہ ہے کہ خاوند نے ادا کاری کے طور پر طلاق دی ہے۔حالانکہ طلاق کامعاملہ انتہائی نزاکت کا حامل ہے۔ وہ یوں کہ اگر کوئی بطور مذاق اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ شرعا ً نافذ ہوجاتی ہے۔حدیث میں ہے:'' کہ تین کام ایسے ہیں کہ اگر کوئی سنجیدگی سے کرے یاازراہ مذاق انہیں سر انجام دے وہ بہر صورت منعقد ہوجاتے ہیں۔ وہ نکاح طلاق او ر رجوع ہے۔''(ابو دائود الطلاق 1394)
بنا بریں بیوی کی طلاق صحیح ہے۔اگرچہ اس نے دوسری کی لالچ میں تحریر کی ہے۔ واضح رہے کہ طلاق کے وقت بیوی کا موجود ہونایا اسے مخاطب کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ خالص خاوند کا حق ہے۔ وہ جب بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرے گا طلاق واقع ہوجائےگی۔خواہ عورت طلاق نامہ کو وصول نہ کرے یا وصول کرکے اسے پھاڑ دے ایسا کرنے سے طلاق پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس طرح نکاح ثانی بھی صحیح ہے۔کیونکہ اس کے لئے پہلی بیوی کی رضا مندی ضرروی نہیں ہے۔پھر دوسری بیوی کے کی نکاح کے لئے شرط ناجائز تھی۔اس کا پورا کرنا بھی ضروری نہیں تھا۔تاہم خاوند نے اسے پورا کیا ہے۔ اور طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کردیا اب رہا رجوع کا مسئلہ تو یہ دو طرح ہوسکتا ہے۔خاوند اپنی زبان سے رجوع کرے یا دوسرا یہ کہ عملی طور پروظیفہ زوجیت اداکرے سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ اس نے طلاق کے کتنے عرصے بعد وظیفہ زوجیت ادا کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا۔ اگردوران عدت عملی رجوع ہوا ہے تو ایسا کرنا اس کا حق تھا اگرعدت گزرنے کے بعد رجوع کیا ہے تو یہ رجوع صحیح نہیں ہے۔کیوں کہ عدت گزرنے کے بعدنکاح ختم ہوجاتا ہے۔پھر بیوی اس کے لئے اجنبی عورت بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک ایک ہی مجلس میں تین طلاق کہنا یا تحریر کرنا اس سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔دوران عدت تجدید نکاح کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے جبکہ عدت کے بعدتجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے۔بشرط یہ کہ یہ پہلا یا دوسرا واقعہ ہو۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب