السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں۔ایسے حالات میں مجھے شرعا ً اجازت ہے۔ کہ میں گھریلو اخراجات کے لئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں۔(ایک خاتون۔۔۔ملتان)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی زمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے۔ اور تنگ دست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔''(65/اطلاق :7)
اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی تلقین فرمائی ہے۔حدیث میں ہے:'' بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے زمے ہیں۔''(صحیح مسلم :الحج 2950)
ان اخراجات میں کھانا پینا علاج رہائش اور لباس وغیرہ شامل ہے خاوند کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات کو پورا کرے۔اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتا ہے۔ یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیو ی کو یہ حق پہنچتا ہے۔کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کرسکتی ہے۔جیسا کہ حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان گھریلو اخراجات پورے طور پر ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے۔کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛'' ہاں! اس کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقے کے مطابق تیری اور تیری اولاد کی گزرا اوقات ہوسکے۔یعنی گھر کانظام چل سکے۔''(صحیح بخاری :النفقات 5364)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
''اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدرلے لے جس سے معروف طریقے کے مطابق اہل خانہ کاگزارہ ہوسکے۔''مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے۔ تو بیوی کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے ا س کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے۔جس سے گھر کانظام چل سکے۔لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لئے ہے۔ فضولیات کے لئے نہیں نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ تو اس طریقے سے اخراجات پورے نہیں کرنے چاہیے۔کیونکہ بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے۔اس بات کا فیصلہ بیوی خود کرسکتی ہے۔ کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے۔بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعا اجازت ہے۔جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزراوقات ہوسکے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب