السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علی پور سے فرزانہ پوچھتی ہیں ۔ کہ کسی مجبوری کی وجہ سے مانع حمل ادویات استعمال کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مانع حمل ادویات استعمال کرنے کی دو اقسام ہیں:
(الف) ہمیشہ کے لئے مکمل طور پر رحم کو حمل کے قابل نہ رہنے دینا ایسا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔اس کی دووجوہات ہیں:
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصو د کے خلاف حرکت کرنا ہے۔ کیونکہ آپ کا مقصود ہے کہ امت اسلامیہ کثرت سے ہو تاکہ قیامت کے دن امت کی کثرت آپ کے لئے سرفرازی اور فخر کا باعث ہو۔ مستقل طور پر رحم کو ادویات سے ناکارہ کردینا پیغمبرانہ مشن کے خلاف ہے۔ لہذا ایسا کرنا جائز نہیں۔
٭ ممکن ہے کہ کسی ناگہانی بیماری سے پہلی اولاد فوت ہوجائے اگرآئندہ اولاد نہ ہونے کا بندوبست کرلیاہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے بے اولاد رہے گی۔اس سے بڑھ کر شو مئی قسمت کیا ہوسکتی ہے؟
(ب) عارضی طور پر کسی بیماری کی وجہ سے رحم میں بندش کردینا اس کے لئے تین شرائط ہیں۔:
1۔دیانت در تجربہ کار ڈاکٹر کی ہدایت ہو کہ آئندہ حمل عورت کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے۔یا اس کا حمل کسی مہلک بیماری کاباعث بن سکتا ہے۔
2۔خاوند سے اجازت لی جائے کیوں کہ حصول اولاد خاوند کا حق ہے۔ اس لئے اس سے اجازت لینا بھی ضروری ہے۔
3۔ادویات کے استعمال سے اسے کسی قسم کے نقصان یاضرر کا اندیشہ ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' خود بخود تم اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مٹ پڑو۔''(2البقرہ:195)
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بعض صحابہ کرام رضوان ا للہ عنہم اجمعین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عورتوں سے عزل کرلیتے تھے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع فرماتے تھے۔ لیکن آدمی کے ایک پرائیویٹ معاملے کو بنیاد بنا کر قطع نسل کی قومی سطح پر تحریک چلانا کس طرح بھی جائز نہیں ہے۔لہذا کی کسی تجربہ کار دیانت دار ڈاکٹر کی ر پورٹ کے مطابق اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر وقتی طور پر مانع حمل ادویات استعمال کی جاسکتی ہیں۔لیکن ایسی ادویات جن کے استعمال سے رحم ہمیشہ کے لئے اولاد کے قابل نہ رہے کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب