السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی بیوی کوکچھ عرصہ پہلے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کردیا ہے اب میری پانچ سالہ بچی اسی کے پاس ہے۔ چونکہ جہاں میری سابقہ بیوی رہائش رکھے ہوئے ہے۔وہاں مغربی تہذیب و ثقافت کازیادہ اثر ہے۔اس لئے مجھے اپنی بچی کے عقائد ونطریات اور اعمال واخلاق بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بچی کو اپنے پاس رکھوں کیا شریعت کی رو سے مجھے یہ حق حاصل ہے۔
کہ میں ایسی حالت میں اپنی بچی کو اس کی ماں کے پاس چھوڑنے کی بجائے اسے اپنے پاس رکھوں تاکہ اس کی صحیح تربیت کا بندوبست ہوسکے۔کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔(سائل عبد الرشید لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ نے بچے کی پرورش وپرداخت کا حقدار ماٰں کو ٹھرایا ہے۔ ا س طرح چھوٹے بچوں کی پرورش کرنے کوشرعی اصطلاح میں ''حضانت '' کہاجاتا ہے۔والدہ کا یہ حق حضانت متعدد روایات سے ثابت ہے۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ روانہ ہونے لگے توسید الشھداء حضرت حمزہ کی ایک چھوٹی بیٹی آپ کے پیچھے آنے لگی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کردیا۔بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق جھگڑنے لگے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ میں اس کی پرورش کا حقدار ہوں۔چونکہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اس بچی کی خالہ تھی اس لئے آپ نے بچی کے متعلق خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا''الخالۃ یمنز الۃ لام''(مسند امام احمد :1/115)
''خالہ ماں کے درجے میں ہے'' آپ کے فیصل کی بنیاد یہ تھی کے بچے کے حق میں ماں انتہائی مہربان ہوتی ہے۔اورپرورش ونگرانی میں وہ مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ہاں اگر ایسے عوارض پیش آجائیں جن کی وجہ سے بچے کے حق میں ماں کی اس محبت وشفقت کے معدوم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ماں کا حق حضانت ختم ہوجاتا ہے۔کیونکہ اس سے مقصود بچے کی فلاح وبہبود ہے۔حضانت اور پرورش کے معاملہ میں بچے کی بہبود کو فوقیت حاصل ہے۔اس بات کااشارہ ان احادیث سے ملتا ہے۔ جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح ثانی کرنے کے بعد ماں کو حق حضانت سے محروم قرار دیا ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ والدین کے اختلاف کے وقت فیصلہ دیاتھا۔
''جب تک تو نکاح ثانی نہ کرے اس بچے کی حقدار ہے۔''(مسند احمد:حدیث نمبر22182)
کیونکہ عین ممکن ہے کہ شوہر ثانی کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے سابق شوہر کے بچے کی پرورش کا حق صحیح طور پر ادا نہ کرسکے۔اس لئے ضروری ہے کہ حق پرورش کے معاملہ میں بچے کی بہبود وحفاظت کا لہاظ رکھا جائے۔اور حالات کے تقاضے کو نظر انداز نہ کیاجائے۔جہاں تک ممکن ہو ماں کو اولیت دی جائے۔ تاکہ اس کی مامتاکا تحفظ ہو۔ بشرط یہ کہ وہاں کوئی امر مانع ہو فقہائے اسلام نے حق حضانت کے متعلق قابل قدر مباحث سپرد قلم کئے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فلاح وبہبود سے مراد صرف جسمانی طور پرپرورش وپرداخت کرنا مقصود نہیں ہے۔ بلکہ زہنی نشونما بھی اس میں شامل ہے۔چنانچہ جس مقام پر بچے کی ذہنیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو اور اس کے اخلاق وافعال بگڑنے کا خطرہ ہو ماں کو حق پرور ش نہیں دیا جائے گا۔درمختار میں ہے دین اسلام سے برگشتہ ہونے والی یافسق وفجور میں مبتلا عورت سے حق حضانت ساقط ہوجاتا ہے۔''(ج2ص688)
جسمانی پرورش کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہے چنانچہ لکھا ہے کہ:''اگر عورت میں شوق عبادت حد اعتدال سے بڑھا ہوا اور یہ ''جنونی شوق'' بچے کی صحیح طور پر نشونما میں رخنہ اندازی کا باعث ہوتو اس قسم کی عورت کو بھی حق حضانت سے محروم کردیا جائے گا۔''(حوالہ مذکورہ)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔''اگر ماں کسی غیر محفوظ مقام پررہائش رکھے ہوئے ہے یا اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے و باپ کواپنی اولاد کا حق ہے۔''(فتاویٰ :ج34 ص 131)
آگے چل کر مذید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔''اصل اعتبار بچے کی بہبود کا ہے اس بنا پر دونوں میں سے کسی ایک کو مطلق طور پر بچے کی پرورش کاحقدار ٹھرایا جاسکتا۔بلکہ ۔نیک ۔عادل بہی خواہ اور اپنے فرائض وواجبات کی ادائیگی پر قدرت رکھنے والے کو یہ حق ملنا چاہیے۔اپنی ذمہ داری پوری طرح نہ نبھانے والے کو یہ حق نہیں سونپا جائے گا۔''(فتاویٰ ابن تیمیہ:ج34 ص 132)
سید سابق لکھتے ہیں کہ:''اس معاملے میں بچے کی پوری نگہداشت وحفاظت کی قدرت کااعتبار ہوگا۔''(فقہ السنہ :2/298)
ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی متعدد فیصلے اسی بنیاد پر صادر کئے ہیں۔چنانچہ کیکائوس نے ایک فیصلہ میں لکھا ہے ''اگرچہ ماں اپنے نابالغ بچے کا (قانونی) حق حضانت رکھتی ہے۔لیکن باپ حقیق والی ہوتا ہے۔اور بچے پر نگرانی اور کنٹرول کرنے کا حق رکھتا ہے۔چنانچہ اگر عورت بچے کو ایسی جگہ پرلے جائے جہاں باپ اس پر اپنی نگرانی اور کنٹرول نہیں رکھ سکتا تو ماں حق حضانت کو کھو دیتی ہے۔''(بحوالہ مجموعہ قوانین اسلام :3/898)
ہمارے فاضل ججوں کے متعددفیصلے ایسے ہیں۔جن میں انہوں نے نابالغ بچوں کو اس بنا پر ماں کی حضانت سے نکال کر باپ کی حضانت میں دے دیا کہ ماں غیر اخلاقی زندگی بسر کرہی ہےاوراپنے لئے ایسے ماحول کاانتخاب کرلیا ہے۔جس میں رہ کر نابالغ بچے مستقل طور پر ایسے اثر میں رہیں گے۔ جو ان کو اخلاقی عادات اور روحانی اقدار کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے صورت مذکورہ میں بھی باپ اس قسم کے حالات سے دو چار ہے۔کہ اس کی بچی اپنی ماں کے زیر اثر رہ کر اخلاقی گرواٹ کا شکار ہوسکتی ہے۔اگرواقعی حالات ایسے ہیں۔جن کاسوال میں زکر کیا گیا ہے۔تو ماں کو حق پرورش سے محروم کرکے پانچ سالہ بچی کوباپ کے حوالہ کردیا جائے تاکہ وہ صحیح طور پر اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرسکے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب