سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(378) فسخ نکاح کے وقت کچھ رقم داخل خزانہ کرنا

  • 11640
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1122

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ضلع مظفر گڑھ سے احمد بخش پوچھتے ہیں کہ عورت نے فسخ نکاح کے لئے مقدمہ دائر کیا عدالت نے خاوند کی موجودگی میں فسخ نکاح کا فیصلہ سنادیا اور مبلغ پانچ ہزار روپیہ داخل خزانہ کے لئے پابند کیا جبکہ حق مہر صرف سو روپیہ تھا۔ یہ رقم حکومت نے داخل خزانہ کردی ہے۔ اب پتہ نہیں کہ اس رقم کو خاوند نے وصول کرلیا ہے کہ نہیں کیا ایسے حالات میں فسخ ہوگا اور عورت آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عائلی زندگی میں طلاق دینے کا حق خاوند کوسونپا گیا ہے۔لیکن اگر  میاں بیوی کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہوجائیں کہ گزراوقات کے لئے کوئی صورت باقی نہ رہے اور شوہر بھی طلاق دینے پر آمادہ نہ ہوں تو ایسے حالات میں اسلام نے عورت کوحق دیا ہے کہ و ہ اپنے خاوند کو کچھ دے دلا کر طلاق حاصل کرلے اسے شریعت کی اصطلاح میں''خلع'' کہتے ہیں۔اس کے لئے شرط یہ ہے کہ  میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں حدود اللہ کے پامال ہونے کا اندیشہ ہوارشاد باری تعالیٰ ہے : اگر انہیں اندیشہ  ہوکہ زن وشوہر اللہ کی حدود کو قائم نہیں رہ سکیں گے۔تو ا ن دونوں کے درمیان کوئی معاملہ طے ہوجانے سے کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت(خاوند سے رپائی پانے کے بدلے)کچھ دے ڈالے۔''(2/البقرہ 229)

اس خلع کی دو صورتیں ممکن ہیں۔

1۔میاں بیوی باہمی رضا مندی سے گھر ہی کوئی معاملہ طے کرلیں اس کے مطابق خاوند اپنی بیوی سے وصولی کے بعد اسے طلاق دےدے۔

2۔خاوند طلاق دینے پر آمادہ نہ ہوتو عورت عدالت کی طرف رجوع کرے پھر عدالت فریقین کے بیانات سننے کے بعد ڈگری جاری کرے۔

صورت مسئولہ میں بھی خاوند طلاق دینے پر آمادہ نہیں اس لئے عورت نے عدالت کی طرف رجوع کیا ہے۔اور عدالت نے خاوند کی موجودگی میں بربنائے خلع  فسخ نکاح کا فیصلہ سنا دیا اور حسب حکم عورت نے مبلغ پانچ ہزار  روپیہ داخل خزانہ بھی کردیئے ہیں۔اب خاوند کی طرف سے خاموشی تنسیخ نکاح پر کوئی اثر انداز نہیں ہوگی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی نے بھی حاکم وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی  طرف ر جوع کیا تھا اور حق مہر میں وصول کیا ہواباغ واپس کرکے اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرلی تھی۔(صحیح بخاری)

احناف کے ہاں بھی یہ مسلم ہے کہ عورت اپنے شوہر کی رضا مندی سے خلع لے اگر ایسا ممکن نہ ہوتو قاضی سے اپنے فسخ نکاح کی درخواست کرے۔جبکہ اس کا خاوند ازدواجی حقوق نہ ادا کرسکتا ہویا دیوانہ یا ضدی ہویا گم ہوچکا ہو۔(تکملہ فتح الحکم شرح مسلم)

علام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ   لکھتے ہیں کہ''خلع پر میاں بیوی کا اتفاق ضروری ہے اگر باہمی ناچاقی ہوتوعدالت کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا اس کتاب کے شارح علامہ نواب صدیق حسن خاں  رحمۃ اللہ علیہ   لکھتے ہیں'' کہ  عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا ا س بنا پر ہے کہ حضرت ثابت   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اس کی بیوی نے اپنا معاملہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا تھاکہ ثابت تم باغ لے کر طلاق دے دو اور عورت کو تاریخ فیصلہ سے عدت گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی اجازت ہے۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:389

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ