السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عبد الرحمٰن بورے والا سے لکھتے ہیں۔کہ ایک شخص اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اور کوئی خرچہ وغیرہ بھی نہیں دیتا ۔اس وجہ سے عورت سخت تکلیف میں مبتلا ہے کیا ایسے حالات میں عورت کو فسخ نکاح کی شرعاً اجازت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے متعلق خاوندوں کو حکم دیا ہے کے ان بیویوں کے ساتھ معاشرت اور رہن سہن میں اچھا برتاؤ کرے۔''(4/النساء :19)
اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ قول وفعل کے زریعہ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔بسا اوقات بُرا برتاؤ تعلقات میں کشیدگی غیروں سے محبت اور نافرمانی وبد اخلاقی کا سبب بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں یہ بھی حکم ہے کہ''اپنی بیویوں کوتکلیف دینے کے لئے مت روکو تاکہ تم حد سے تجاوز کرو۔''(2/البقرہ 231)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور انہیں تکلیف دینے سے اجتناب کرنا چاہیے عورت کو خرچہ وغیرہ نہ دینا اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہوسکتی ہےحدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:'' کہ جو آدمی اپنی بیوی پر اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا ان کے درمیان تفریق کرادی جائے۔''(دارقطنی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی فوج کے سربراہوں کولکھاتھا کہ جو آدمی اپنی عورتوں سے غائب ہیں انہیں چاہیےکہ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں یا پھر انہیں طلاق دے کر فارغ کردیں طلاق دینے کی صورت میں بھی پہلی مدت کے اخراجات ادا کرنا ہوں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فیصلے کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی تھی گویا کہ تمام صحابہ کرام رضوان ا للہ عنہم اجمعین کااس پر اجماع ہے۔(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
ان آیات اور احادیث وآثار سے معلوم ہواکہ تنگ دست یادانستہ خرچ نہ کرنے والے کی بیوی اخراجات کی عدم ادایئگی پر نسخ نکاح کامطالبہ کرسکتی ہے۔اور اس میں وہ حق بجانب ہے۔لیکن اس کا طریقہ کار یہ ہو کہ حاکم وقت کے ہاں استغاثہ دائر کرے وہ حالات کا جائزہ لے کر فسخ نکاح کافیصلہ کرے گا۔پھر عورت عدت گزارےاس کے بعد آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ صرف فتویٰ کو بنیاد بنا کر نکاح نہیں کیا جاسکتا ۔فتویٰ کسی کاحق ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن وہ حق کسی سے لے کر دوسرے کے حوالے کرنا عدالت کا کام ہے۔لہذا عدالت کے حضور درخواست دے کراس کے متعلق فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب