سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(374) عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری لینا

  • 11636
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-11
  • مشاہدات : 2932

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملتان سے احمد دین سوال کرتے ہیں۔ کہ ایک عورت اپنے خاوند سے تنگ ہے اور طلاق چاہتی ہے۔ لیکن خاوند طلاق دینے سے انکاری ہے۔ عورت نےعدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کرکے دوسری جگہ شادی کرلی ہے۔کیا یہ نکاح درست ہے؟اگر درست نہیں تو اس مجلس  نکاح میں شرکت کرنے والوں کے لئے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی اور خاوند میں اگر اس قدر منافرت اور ناچاقی پیدا ہوچکی ہو کہ آئندہ اکھٹے رہنے کی صورت میں وہ احکام الٰہی کی پابندی نہیں کرسکیں گے۔ تو عورت کاخاوند سے چھٹکارا حاصل کرنا خلع کہلاتاہے۔ کیوں کہ بلاوجہ خلع لینے کے بارے میں احادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے:'' کہ جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔''(جامع ترمذی کتاب الطلاق)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بایں الفاظ خلع کے متعلق فرمایا:'' اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کی حدودکوقائم نہیں رکھ سکیں گے۔اس لئے اگر بیوی کچھ مال(شوہرکو) بطور فدیہ دےدے توان دونوں کےلئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔''(2/البقرہ 239)

یہ آیت احکام خلع کے متعلق ایک بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ خلع یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کو تھوڑز بہت مال دےکر طلاق دینے پر راضی کرلے کیوں کہ اس کے ساتھ کسی معقول مجبوری کی وجہ سے آئندہ نباہ نہیں ہوسکتا۔ اگر خاوند طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو بزریعہ عدالت طلاق لی جاسکتی ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خاوند اپنی بیوی کو بلاوجہ تنگ نہ کرے تاکہ ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ بیوی تھوڑا بہت مال د  ے کر اس سے نجات حاصل کرنے پر مجبور ہوجائے احادیث سے معلوم ہوتا  ہے کہ خلع اس صورت میں جائز ہے۔جب عورت کا عذر معقول ہو بلا وجہ خلع لینے پر سخت ممانعت ہے جیسا کہ حدیث بالا سے واضح ہے ایک اور حدیث میں ہے:'' کہ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں۔''(مسند امام احمد2/414)

صورت  مسئولہ میں بیوی نے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے عدالتی چارہ جوئی کرکے اپنے حق کواختیار استعمال کیا ہے اور اس میں حق بجانب معلوم ہوتی ہے۔ عدالت نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرتی حالات کے پیش نظر اس کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے۔سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ عورت نے عدالتی  فیصلہ کے فوراً بعد نکاح کرلیاہے۔یا ایک حیض آنے کے بعد دوسرا نکاح کیا ہے۔ امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی کتاب میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے''خلع یافتہ عورت کی عدت''اس کے  تحت وہ حدیث لائے ہیں۔کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خلع یافتہ عورت سے فرمایاتھا کہ وہ ایک حیض آنے تک انتظار کرے۔(نسائی کتاب الطلاق باب عدۃ المتعلقہ)

اگر حدیث کے مطابق عمل کیا ہے تو اس مجلس میں نکاح میں شریک ہونے والے مجرم نہیں ہیں۔بصورت دیگر وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس کی اللہ سے معافی مانگنی چاہیے لیکن ایسا کرنے سے ان کے نکاحوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ واضح رہے کہ اگر عورت نے ایک حیض آنے سے پہلے نکاح کرلیا ہے تو ایسا نکاح شرعا ً درست نہیں ہے۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:385

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ