سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(373) مفقود خاوند کی صورت میں عورت کے متعلق حکم

  • 11635
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کمالیہ سے قاری عبدالرحیم زاہد لکھتے ہیں۔ کہ  عورت کا خاوند عرصہ پانچ سال سے لاپتہ  ہے تلاش بسیار کے باوجود اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا ایسی عورت کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا وہ آگے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیاجائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گمشدہ شوہر کو فقہی اصطلاح میں مفقود الخبر کہا جاتا ہے۔ زوجہ مفقود کے نکاح ثانی کے متعلق علمائے امت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ   اور امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ   کا موقف یہ ہے کہ مفقود کی بیوی اس وقت  تک عقد نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتا جب تک شوہر مفقود کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔کتب فقہ میں اس کی بایں الفاظ بھی تعبیر کی گئی ہے۔کہ مفقود کے ہم عمر لوگ جب تک زندہ ہوں اس وقت دوسرے مرد سے اس کانکاح درست نہیں ہے۔ احناف کے  مسلک میں یہ روایت بھی ہے کہ ہم عمر لوگوں کی موت کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پر ہے۔جبکہ بعض حضرات نے طبعی عمر کالہاظ رکھتے  ہوئے مدت انتظار کاوقت متعین کیا ہے۔ جس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک نوے برس اور بعض کے نزدیک 75 یا 70 برس ہیں۔لیکن امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   کے نزدیک زوجہ مفقود کی مدت انتظار چار سال ہے۔امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   کے موقف کی بنیاد حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ایک فیصلہ ہے:'' جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ  عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر چاہے تو دوسرا نکاح کرے۔''(موطا امام مالک :کتاب الطلاق)

ہمارے نزدیک امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   کا موقف صحیح ہے کیوں کہ اسے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں۔لیکن مدت انتظار کا  تعین حالات وظروف کے تحت کیا جاسکتا ہے۔موجودہ زمانہ میں زرائع رسل ورسائل اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور بھی زمانہ قدیم میں محال تھا۔آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور اخبارات کے زریعے ایک دن  ملک کے کونے کونے میں پہنچاسکتے ہیں۔بلکہ انٹر نیٹ کےزریعے چند منٹوں میں اس کی تصویر بھی دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچائی جاسکتی ہے۔اس لئے اس مدت کو مزید کم کیاجاسکتا ہے چنانچہ امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف ہے۔چنانچہ وہ اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں؟مفقود الخبر کے اہل وعیال اور مال ومتاع کے متعلق کیا حکم ہے'؟

اس کے تحت لفظ کی احادیث لائے ہیں کہ اگر کسی کا گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کاسال بھر اعلان کرے ان احادیث کے پیش کرنے سے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ   کے رجحان کاپتہ چلتا ہے۔کہ زوجہ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیاجاسکتا ہے کیونکہ نکاح کوئی دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائےاور یہ ایک ایسا حق ہے جو مرد کے لئے لازم ہوچکا ہے۔ اس عقدہ نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے۔ لیکن دفع ضرر کی عدالت مرد کے قائم مقام کی حیثیت سے نکاح فسخ کرسکتی ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے اس لئے گم شدہ خاوند سےخلاصی کے لئے یہ طریقہ اختیار کیاجائے کہ عورت کی طرف رجوع کرے ا  س سے قبل جتنی مدت بھی گزر چکی ہوگی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیاجائے گا۔ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے یااس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل نکاح کرلیتی ہیں ان کایہ اقدام صحیح نہیں ہے۔چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ   سے دریافت کیاگیا  کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود الخبر کا چار سال تک انتظار کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟اما م مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے جواب دیا:'' کہ اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو اس کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا۔''(المدینۃ الکبریٰ :2/93)

لہذا مدت انتظار کی ابتدا  اس وقت سے کی جائے گی۔جس وقت حاکم وقت(جج) خود بھی تفشیش کرکے مفقود کے بارے میں مایوس ہوجائے عدالت میں پہنچنے اور اس کی تفشیش سے قبل خواہ کتنی مدت گزرچکی  اس کااعتبار نہ ہوگا۔اس بنا پرضروری ہے ککہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہوجائے۔وہ عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت بعداثبوت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی شوہر مفقودالخبر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عورت کو مذید ایک سال تک انتطار کرنے کا حکم دے ایک سال تک اگرشوہر نہ آئے توعدالت ایک سال کی مدت کے اختتام پر نکاح فسخ کردے گی۔ پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ  تصور کرکے عدت وفات یعنی چارماہ دس دن گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔

واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں بصورت دیگرعدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کرسکتی ہے۔اب اگردوران مدت یادوران عدت اس کا خاوند آجائے تو اسے  اس کی بیوی مل جائے گی اگر نکاح ثانی کرلینے کے بعد خاوند آیا تو اس بیوی سے محروم رہنا پڑےگا۔ ایسا  ہو نا ممکن ہے جیسا کہ چند سال قبل ایک شخص اسلم قریشی کی گمشدگی اور پھر اس کی ڈرامائی انداز میں واپسی ہوئی تھی۔

یہ بھی واضح رہے کہ تفشیش کے اخراجات عورت  کے زمہ ہیں۔بشرط یہ کہ و ہ صاحب حیثیت ہوبصورت دیگر بیت المال مصارف تفشیش برداشت کرے گا۔ اگر بیت المال موجود نہ ہوتو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ از خود اس ستم زدہ عورت کے ساتھ تعاون کریں اور تفشیش پر اٹھنے والے اخراجات کابندوبست کریں۔اگرعدالت اس معاملہ کو بلا وجہ طول اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہوتو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے۔اور فیصلہ کرے تو ان کا یہ فیصلہ بھی عدالت کا ہی  فیصلہ ہوگا۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:383

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ