السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
منڈی یزمان سے رشید احمد جٹ لکھتے ہیں۔کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کے ارادہ سے وثیقہ نویس کے پاس گیا اور اسے طلاق نامہ لکھنے کے متعلق کہا اس نے طاق نامہ پر تین طلاق لکھ دیں کیا اس طرح طلاق سے رجوع کا امکان باقی رہتاہے یانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ صورت مسئلہ میں شوہر خواندہ ہو یا ناخواندہ نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دینے کی نیت سے وثیقہ نویس کے پاس گیا۔اور اس نے تین طلاقیں لکھ دیں پھر اسے پڑھ کر سنایا اور اس نے بقائمی ہوش وحواس اسے سنا اور اپنے دستخط یا انگوٹھا ثبت کیا کیا اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینے سے تینوں ہی واقعہ ہوجاتی ہیں یا نہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے طلاق دینے پر نہ صرف اظہار ناراضگی فرمایا ہے بلکہ اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔حضرت محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔توآپ یہ سن کرغصے میں آگئے اور فرمایا:'' کہ میری موجودگی میں ہی ان لوگوں نے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا ہے۔'' ایک جانثارنے آپ کی ناراضگی کو دیکھا تو عرض کیا کہ اگر آپ مجھے اجاز ت دیں تو اسے قتل کردوں؟(سنن نسائی:کتاب النکاح)
اس کے برعکس اگر کوئی کتاب وسنت کے مطابق طلاق دے تو شریعت نے ایسے شخص کو متعدد موقع فراہم کیے ہیں۔تاکہ وہ باعزت طور پر رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آبادکرسکے کتاب وسنت کی روشنی میں ایک ہی مجلس میں تین طلاق ایک رجعی ہوتی ہے اگر یہ پہلا یا دوسرا واقعہ ہے۔تو دوران عدت خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق ہے۔اور پہلا نکاح بھی برقرار رہے گا۔البتہ عدت گزرنے کے بعد اسی طلاق دہندہ کے ساتھ تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے اس موقف کے حسب زیل دلائل ہیں۔
1۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی۔اس کے بعد لوگوں نے اس گنجائش سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تادیبی طور پر تین طلاق نافذ کرنے کا حکم صادر اور فرمادیا۔(صحیح مسلم :ج1 ص 433۔مسند امام احمد :ج1 ص314)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اقدام تعزیری تھا کیوں کہ آپ عمر کے آخری حصے میں اپنے اس فیصلے پر اظہار افسوس فرمایا کرتےتھے۔جیسا کہ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے محدث ابو بکر اسماعیلی کی تصنیف ''مسندعمر'' کے حوالہ سے لکھا ہے۔(اغاثہ اللفہان :ج1 ص 314)
2۔ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی اس کے بعد انہیں اپنی بیوی کے فراق میں انتہائی افسوس ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب معاملہ پہنچا تو آپ نے اسے بلایا اور دریافت فرمایا:'' کہ تو نے طلاق کیسے دی تھی۔ عرض کیا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ تو ایک رجعی طلاق ہے۔اگرچاہے تو رجوع کرلو۔''چنانچہ اس نے رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آباد کرلیا۔(مسند امام احمد :ج 1 ص 265)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:'' کہ یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔''(فتح الباری :ج9 ص 362 کتاب الطلاق)
ا ن احادیث کی روشنی میں ایک باغیرت کتاب وسنت پر ایمان اور ان پر عمل پیرا ہونے والے کے لئے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں تو اسے رجوع کا حق ہے۔اگرعدت کے ایام پورے ہوچکے ہیں تو بیوی کی رضا مندی اس کے سرپرست کی اجازت نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید سے رجوع ہوسکے گا۔قرآن وحدیث کا یہ فیصلہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں رائج عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتویٰ دیا جاتا ہے۔اس کے لئے بدنام زمانہ حلالہ کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایسا کرنا بے غیرتی اور بے حیائی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب