سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(360) طلاق دینے کےلیے مخصوص الفاظ کا استعمال

  • 11622
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1108

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سائل خریداری نمبر 3117 نے لکھا ہے۔کہ میری بیٹی کا اپنے خاوند سے کسی بات پر جھگڑا ہوا میں نے بیٹی اور داماد کو سمجھایا اور صلح کرانے کی کوشش کی مگر میرا داماد صلح پر آمادہ نہ ہوا۔بلکہ اس نے کہا اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو۔یہ یکم جنوری 2001 ء کا واقعہ ہے اس کے بعد میرے داماد نے دوسری شادی بھی کرلی ہے۔ اس کے باوجود میں نے دوبارہ صلح کے لئے رابطہ کیا لیکن وہ صلح کے لیے تیار نہیں ہے۔کیا اس طرح میری بیٹی کو طلاق ہوگئی یا نہیں؟کیا وہ آگے نکاح کرسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی خاوند کا اگر گھر میں کسی بات پر جھگڑ اہوجائے تو اسے گھر میں رہتے ہوئے نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن اگر داماد نے سائل کو یہ کہہ دیا ہے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ میری طرف سے فارغ ہوصرف اتنا کہنے سے طلاق نہیں ہوگی۔کیونکہ یہ الفاظ اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کرکے نہیں کہے اگر بیوی ہی کو کہے  تب بھی یہ الفاظ طلاق کے لئے صریح نہیں ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں اسے  کنایہ کہا جاتا ہے۔ ایسے الفاظ کہنے سے خاوند کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس کی نیت واقعہ طلاق کی تھی تو اسے طلاق شمار کیاجائے گا۔بصورت دیگر یہ الفاظ ایک دھمکی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ داماد کا دوسری شادی کرلینا بھی طلاق کے لئے دلیل نہیں بن سکتا ۔کیوں کہ یہ اس کا حق ہے جو اس نے استعمال کیا ہے بہتر ہے کہ پنچایتی طور پر خاوند سے دریافت کیا جائے کہ اس کی ان الفاظ سے کیا مراد تھی؟اگر اس نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے تو اب بیوی کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے لہذا اسے شرعاً نکاح کرنے کی اجازت ہے۔اور اگر اس نے یہ الفاظ اگر طلاق کی نیت سے استعمال نہیں کیے بلکہ بطور دھمکی اور اصلاح احوال کے لئے کہے ہیں تو اس صورت میں طلاق نہیں ہوگی سائل کی بیٹی ایسے حالات میں بدستور داماد کی بیوی ہے برادری کے سرکردہ احباب یا مقامی معززین کے زریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔تاکہ معاملہ زیادہ خراب نہ ہو۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:372

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ