السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تھنہ ضلع اٹک سے مولانا محمد اسحاق خریداری نمبر 3118 لکھتے ہیں۔ کہ مندرجہ زیل سوال کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں درکا ر ہے۔ ایک آدمی بایں الفا ظ قسم اٹھاتا ہے۔ کہ اگر میں اپنے بھائیوں کی دکان میں کام کروں گا تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے۔اب اگر وہ اس دکان میں کام کرے گا تو کیا اس کی بیوی کو طلاق ہوجائےگی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم ا ٹھانے والے نے بھائیوں سے کسی رنجش کی بنا پر ان کی دکان پر کام نہ کرنے کی قسم اٹھائی لیکن الفاظ اس طرح ادا کیے کہ اگر میں اپنے بھائیوں کی دکان پر کام کروں تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے۔ان الفاظ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا قطعی مقصود نہ تھا:''کہ اگر انسان اپنی بیوی کوخود پر حرام کرلینے کے الفاظ ادا کرتا ہے تو اس سے طلاق نہیں ہوتی ہے۔بلکہ یہ ایک قسم اٹھانے کا انداز ہے۔ اسے صرف قسم کا کفارہ ینا ہوگا جو دس مساکین کو کھانا کھلانا انہیں لباس دینا ہے عدم استطاعت کی صورت میں تین دن کے روزے رکھنے سے ہی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی کسی لونڈی یاشہد کوخود پر حرام کرلیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا:'' تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔''(66/التحریم:2)
یعنی جو چیز خود پرحرام کی گئی اسے قسم کا کفارہ دے کر استعمال کیا جاسکتاہے۔(صحیح بخاری :کتاب التفسیر کتاب الطلاق)
صورت مسئولہ میں اگر بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو قسم کا کفارہ ادا کرکے اپنے بھائیوں کی دکان پر حسب سابق کام شروع کردے اس انداز سے بیوی کو طلاق نہیں ہوتی۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب